کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 206
طائف تشریف رکھتے تھے، اپنے ساتھیوں کو اس ارادے سے اگاہ کیا تو وہ بھی تیار ہوگئے، اس طرح میرے ساتھ میرے چند رفقاء حافظ محمد شریف، عبدالرشید راشد اور دیگر دو دو ستوں کے علاوہ جامعہ ابی بکر کراچی کے بانی پروفیسر ظفر اللہ مرحوم بھی تھے، افسوس کہ دو سال پہلے پروفیسر صاحب بھی ایک ٹریفک حادثے میں اللہ کو پیارے ہوگئے، جب اس حادثے کی خبر ملی تو مجھے پروفیسر صاحب کی وہ گفتگو یاد آگئی جو انہوں نے سفر طائف کے دوران کی تھی، بات یوں تھی کہ جون کا مہینا تھا اور وقت ظہر کے بعد کا، طائف کو دوراستے جاتے ہیں، طریق سیل جو بیس تیس کلو میٹر لمبا ہے، لیکن کافی ہموار ہے، دوسرا پہاڑی راستہ ہے جو بہت خوفناک ہے، میں طریق سیل سے جارہاتھا، ایک تو مکے کی گرمی کہ اللہ کی پناہ اور پھر وقت بھی سخت دوپہر کا، گاڑی کی رفتار نوے کلومیٹر تھی، پرفیسرصاحب زور دیتے تھے کہ ایکسلیٹراور دباؤ، میں نے کہا گرمی سخت ہے اور سفر ابھی کافی ہے، بہتر ہے تھوڑا سا لیٹ پہنچ جائیں، یہ رفتار ٹھیک ہے، گاڑی بار بار گرم ہوئے جارہی تھی اگر اسے تیز کیا گیا تو بند کرنی پڑے گی، مگر مرحوم کا اصرار تھا پھر انہوں نے اپنا واقعہ سنایا کہ ریاض سے مکہ مکرمہ آتے ہوئے ڈیڑھ سو کلو میٹر پر گاڑی دوڑائی تو باری باری چاروں ٹائر پھٹ گئے تھے، میں نے کہا ایسی تیزی کس کام کی جو اتنا نقصان کرے، عربی کا محاورہ ہے ’’السیارۃ آلۃ النقل لا للقتل‘‘ گاڑی نقل و حرکت کے لیے ہے نہ کہ قتل کے لیے، پروفیسر صاحب کے حادثے پر خیال ہوا کہ احباب کو احتیاط سے گاڑی چلانی چاہیے، اللہ کی حفاظت بھی اسی کے ساتھ ہوتی ہے جو اپنی حفاظت کرے، اللہ سب کو اپنی حفظ وامان میں رکھے۔
دور ان سفر دعائے مستضعفین بھی میں نے ساتھیوں کو سنائی، جو رسول کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف سے واپسی پر مانگی تھی، طائف پہنچے تو کچھ ساتھ شیخ حامد فقی کی زیارت کے لیے چلے گئے، وہ بہت بڑے عالم ربانی تھے، جمال عبدالناصر کی انسانیت کش مظالم کی وجہ سے مصر سے مہاجر ہو کر یہاں بیٹھے تھے، بہت بڑی علمی شخصیت تھے، ان کا بھی کافی سال ہوئے انتقال ہوچکا ہے، شام کو شیخ ابن باز سے دلچسپ اور یاد گاری ملاقات ہوئی، شیخ کے ایک صاحبزادے صحیح بخاری کا سبق بھی