کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 205
اگلے دن بیت اللہ شریف میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد امام کعبہ شیخ ابن السبیل نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی، شاہ فہد اپنی پوری کابینہ کے ساتھ حرم شریف میں موجود تھے، سعودی عرب کے کونے کونے سے علماء وطلباء حاضر تھے، پڑوسی عرب ممالک سے لاکھوں شمع ہدایت کے پروانے بیت اللہ میں نماز جنازہ میں شرکت کی، اس کے علاوہ سعودی عرب کی تمام مساجد میں نماز جنازہ غائبانہ ادا کرنے کا شاہی فرمان جاری کیا جاچکا تھا، عرب ممالک کے علاوہ پوری دنیا میں جمعہ کی نماز کے بعد شیخ کی نماز جنازہ غائبانہ ادا کی گئی، اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ بیک وقت دنیا کے تمام کونوں میں شیخ ابن باز کی نماز جنازہ ادا کی گئی، یہ شرف بہت کم لوگوں کو نصیب ہوا ہوگا، نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد ایک بج کر بیس منٹ پر آپ کا جسد خاکی مقبرۃ العدل لے جایا گیا، جہاں امیر متعب بن عبدالعزیز، گورنر مکہ امیر ماجد بن عبدالعزیز اور کثیر تعداد میں اہم شخصیتیں موجود تھیں، امیر متعب اور شیخ محمد بن صالح العثیمین نے جنازے کو قبر تک کندھادیا، آنسوؤں کی بارش اور دعاؤں کی فضا میں دور حاضر کے شیخ الاسلام والمسلمین کو جوار رحمت میں پہنچا دیاگیا۔ آپ کی وفات پر دنیا بھر کے اہل علم، محدثین اولیاء اللہ اور علم وعمل کے ورثاء نے اپنے درد وکرب کے جذبات کا مظاہرہ کیا اور عالم اسلام کا ناقابل تلافی نقصان قرار دیا، خاص طور پر ملک فہد نے تو اپنی منصبی روایات کو بالائے طاق رکھ کر شیخ کی موت پر جس طرز عمل کا مظاہرہ کیا وہ ایسے معلوم ہوتا تھا کہ جیسے ایک بوریا نشین درویش کی رخصتی نہیں بلکہ ایک مشفق باپ کی جدائی کا مرحلہ تھا اور اس میں کیا شک ہے کہ سعودی عرب کا شاہی خاندان تمام علماء و مشائخ شیخ ابن باز کا احترام صرف ایک عالم ربانی ہی کی طرح نہیں، بلکہ ایک باپ کی طرح کرتے تھے۔ چند ملاقاتوں کی یاد یں : مدینہ یونیور سٹی میں آخری تعلیم سال یعنی 1985ء میں فراغت کے بعد وطن جانے سے پہلے شیخ کی زیارت کا ارادہ ہوا، اس غرض سے طائف جانا تھا، کیونکہ گرمیوں کی وجہ سے شیخ