کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 203
لکھا تھا، اس کا جواب ہم نے پاکستان کے پتے پر بھیجا تھا، میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ایک پرانی بات شیخ کے حافظے میں کس طرح محفوظ اور تازہ ہے، حالانکہ اس کے بعد شیخ کو روزانہ سینکڑوں خطوط ملتے ہیں اور ان سب کا جواب بھی عنایت فرماتے ہوں گے، حیرانی کی بات تو یہ ہے شیخ کو سب کے نام اور خطوط کے موضوع بھی یاد ہیں،بلکہ یہ بھی پتا ہے کہ کس خط کا جواب کس پتے پر بھیجا، اللہ اللہ قرون اولیٰ کے علماء کی یاد تازہ ہو گئی، اسی دوران میں نماز کھڑی ہوگئی، مجھے دائیں پہلو کھڑا ہو کر نماز ادا کرنے کا شرف حاصل ہوا، اس کی لذت وحلاوت ابھی تک محسوس ہوتی ہے۔ تحمل مزاجی وبردباری: جس کے دن کے چوبیس میں سے اٹھارہ گھنٹے تبلیغ دین میں صرف ہوتے تھے، اٹھتے بیٹھتے وہ سائلین کی علمی پیاس بجھاتے تھے، فون کی ساری لائنیں ہمیشہ مصروف ہوتی تھیں، ایک ریسیور دائیں کان پر لگا ہوا ہے اور دوسرا بائیں پر، دونوں کو ایک ساتھ جواب دیتے جارہے ہیں، ہر وقت افتاء میں مشغول ہیں، کبھی تنگ دل نہیں ہوتے دیکھا، کبھی تلخی کے ساتھ بات نہیں کی، کسی کو جھڑکتے نہیں سنا، یعنی ہر لحاظ سے وہ اخلاق فاضلہ اور خلق حسنہ کی صفات سے متصف تھے۔ وفات کی رات دعوت کاکام: شیخ اپنی زندگی کے آخری لمحات تک دعوت کے کام میں مشغول رہے، مرض وفات میں آپ کو طائف کے ہسپتال میں داخل کیا گیا تو وہاں آپ کے بیڈ کے قریب ایک عیسائی مریض زیر علاج تھا، شیخ اسے بار بار اسلام قبول کرنے کی نصیحت کرتے رہے۔ شیخ رحمہ اللہ مختصر حالات: شیخ رحمہ اللہ کی ولادت ریاض میں 1330ھ میں 12ذی الحجہ کے دن ہوئی، بلو غت سے پہلے قرآن کے حافظ ہو چکے تھے، دینی علوم بڑے بڑے فاضل مشائخ سے حاصل کیا، ان میں شیخ محمد بن عبداللطیف آل شیخ، شیخ صالح بن عبدالعزیز آل شیخ، شیخ سعد بن حمدالعتیق، شیخ حمد