کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 202
دارالافتاء کا رئیس بنا، علم وعمل کی وجاہت کا عالم یہ کہ بادشاہ انہیں اپنا والد کہہ کر مخاطب ہوتے، انہیں اپنے والد کی جگہ سمجھ کر غایت درجہ احترام دیتے، جب بھی کوئی مسئلہ پوچھتا تو ہر سوال کے جواب میں قرآنی آیات اور احادیث کا انبار لگا دیتے، شریعت کے ان چشموں پر استحضار کا عالم یہ کہ جیسے ہر صفحہ ان کے سامنے کھلا ہوا ہے۔ شیخ کا حافظہ اتنا بے مثال تھا کہ کسی زمانے میں فتح الباری کی تخریج بھی شروع کی تھی، ابتدائی جلدیں مصر سے شائع ہوئیں، لیکن یہ بات ان کی ذکاوت کی دلیل ہے کہ نابینا ہونے کے باوجود تخریج احادیث جو علمی دنیا کا سب سے مشکل اور جان جوکھوں کا کام ہے، جو صرف وہی عالم کر سکتا ہے جس کا حافظہ اتنا قوی ہو کہ ایک بار ماخذوں پر مطلع ہو جانے کے بعد کبھی نہ بھول پائے، صرف مطالعے کے زور سے تخریج کے کام کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا،بلکہ اس کے لیے قوت استحضار اور فہم وذکاء بہت ضروری چیز ہے، شیخ رحمہ اللہ اس پہلو میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔ مجھے یاد ہے کہ مدینہ یونیور سٹی میں دوران تعلیم خیال ہوا کہ شیخ کے فتاویٰ کو اگر فقہی ترتیب سے جمع کر دیا جائے تو صدقہ جاریہ بھی ہو گا اور علمی دنیا میں یاد گار کام بھی، چنانچہ اس غرض سے میں نے چھ ماہ تک محنت کی، مختلف رسائل جن میں فتاویٰ چھپتے تھے جمع کیے، اتنی جانکاہی کے بعد جب میں نے انہیں فقہی ترتیب سے جمع کیا تو بڑی مایوسی ہوئی،کیونکہ بہت سارے ابواب خالی نظر آئے، میں نے شیخ کو خط بھیجا کہ مجھے کچھ ریکارڈ چاہیے، جس کا جواب انہوں نے دیتے ہوئے کہا کہ جتنا کام ہو چکاہے وہ بھیجو، پھر دیکھوں گا کہ میں اس سلسلے میں کیا مدد کر سکتا ہوں، میں نے وہ سارا مواد ارسال کر دیا، اتنی دیر میں گرمیوں کی تعطیلات کی وجہ سے وطن جانا پڑگیا،پاکستان کا ایڈریس اسی خیال سے لکھ دیا کہ بوقت ضرورت مجھے شیخ کا خط مل سکے، تین ماہ گزار کر واپس مدینہ منورہ پہنچا تو تعلیمی مصروفیات کی وجہ سے فتاویٰ کا کام ذہن ہی نکل گیا، سال بعد حرم میں عصر کی نماز کے لیے بیٹھا ہواتھا کہ شیخ بھی نماز کے لیے پہنچ گئے، میں شیخ سے ملا، بڑی اپنائیت سے نام پوچھا، جب بتایا تو فرمایا تم نے ہمارے خط کا جواب نہیں دیا، میں نے حیران ہو کر پوچھا تو کہا کہ وہ جو فتاویٰ ترتیب دینے کے بارے میں