کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 201
کا خادم ہونا ہے، دنیا کے کونے کونے میں دعوت الی اللہ، سعودی حکمرانوں کی سخاوت ودریا دلی کا مظہر ہے، وہ دین حقہ کی نشر واشاعت میں بلا خوف لومۃ لائم پوری دلجمعی کے ساتھ مشغول ہیں، اس کے ساتھ ساتھ وہ عالمی سیاست سے بھی غافل نہیں رہ سکتے، ہر فیصلے کے عواقب پر ان کی نظر عام حکمرانوں کی نسبت بہت وسیع ہوتی ہے، ملک سطح پر امن وامان قائم رکھنا بھی ان کی ذمہ داری ہے، ظاہر ہے ان الدرونی وبیرونی محاذوں پر بیک وقت انہیں اپنا وقار برقرار رکھنا ہوتا، ان سارے معاملات میں یکسانیت نہیں رہ سکتی، یہاں دو چار نہیں بے شمار مشکل مقامات آتے ہیں جن کا انہیں تو لحاظ رکھنا پڑتا ہے، لیکن علماء ربانی پر کوئی جبر نہیں اس لیے ضروری نہیں کہ وہ ہر بات میں حکومت کی ہاں میں ہاں ملائیں اور وہ ایسا نہیں کر سکتے اور شیخ بن باز نے ایسا کیا بھی نہیں، اس کے باوجود بادشاہ انہیں اپنے والد کی طرح جانتے تھے، انہیں والدمفعال کہتے تھے، ہر منگل کو ظہر کی نماز ان کی معیت وامامت میں ادا کرتے تھے، اپنے فیصلوں سے شیخ کو مطلع کرتے اور ان کی رائے لیتے تھے، کیونکہ سعودی حکمرانوں کے دستور العمل میں اہل علم کی شمولیت اور لحاظ موجود ہے، کسی بھی بڑے منصب پر تقرری کے لیے جہاں شاہی فیملی کا اتفاق ضروری ہے وہاں علماء کی تصدیق بھی ضروری ہے، یہی وجہ ہے کہ سعودی مملکت ایک بابرکت سلطنت ہے، کیونکہ اس کے حکمران محض حکمران ہی نہیں دین اسلام کے خادم بھی ہیں، دنیا میں امامت کا سب سے بڑا منصب انہی کے پاس ہے، اس مملکت میں قیصر اور کلیسا یعنی مذہب وسیاست جدا جدا نہیں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، بلکہ یہاں سیاست دین کے تابع ہے، الحمدللہ یہی وجہ ہے کہ شیخ کے انتقال پر ملک فہد کا سب سے پہلے رد عمل سامنے آیا۔ حیرت انگیز حافظہ: ہم نے اسلام کے تذکروں میں قوت حافظہ کی حیرت انگیز کہانیاں پڑھی تھیں، شیخ رحمہ اللہ کو دیکھ کر ان روایات کی تصدیق ہوگئی، یہ حافظے کی ہمہ گیری ہی تھی کہ ایک نابینا شخص پورے پچاس سال تک علمی دنیا کا بے تاج بادشاہ بنا رہا، مدینہ یونیورسٹی کا چانسلر بنا، پوری مملکت کے