کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 200
تھا، یہ چیزیں ان کی لغت میں شامل ہی نہ تھیں۔ حق کے علمبردار صاحب مناصب: سب سے زیادہ حیرت کی بات کہہ لیں یا انہیں ان کی کرامت شمار کریں کہ ہمارے علم کی حد تک سعودی عرب کے پانچ بادشاہوں یعنی (1) ملک عبدالعزیز بن عبدالرحمٰن آل سعود ملک المملکۃ السعودیہ جو عدل وانصاف، عقیدہ توحید کی نشر واشاعت اور بے مثال جرأ ت وبہادری کی وجہ سے اس صدی کے عمر بن عبدالعزیز تھے۔ (2) ان کے بعد ان کے بڑے بیٹھے ملک سعود بن عبدالعزیز (3) پھر ان کے بعد ملک فیصل بن عبدالعزیز وما ادراک مافیصل، عالم اسلام کی آنکھوں کا تارا، ایک نڈر لیڈر، ایک بہادر امام المسلمین (4) پھر ان کی شہادت کے بعد ولی صفت ملک خالد بن عبدالعزیز جو تحمل، بردباری، ذہانت اور شجاعت میں اپنے بات کی تصویر تھے۔ (5)ان کی وفات کے بعد سعودی عرب کو ایک پسماندہ ملک سے دنیا کی ایک ترقی یافتہ مملکت کار وپ دینے والے امام الموحدین ملک فہد بن عبدالعزیز، اللہ ان کی عمر دراز فرمائے۔ ان مذکورہ پانچ بادشاہوں کے ساتھ شیخ ابن باز رحمہ اللہ کو رفاقت کا موقع ملا، لیکن نہ انہوں نے حق کا دامن چھوڑا اور نہ ہی بادشاہوں کی نازک مزاجی پر ہاتھ ڈالا، بادشاہوں کے ساتھ اہل علم کا مستقل ساتھ بہت مشکل ہوتا ہے، کیونکہ بادشاہوں کی مصلحتیں اور مجبوریاں عام لوگ نہیں جان سکتے، جبکہ علماء کا اپنا فرض ہوتا ہے، یعنی کسی بھی مرحلے پر حق کا علم جھکنے نہ پائے، انہیں صرف اللہ ہی کا خوف ہوتا ہے، اسی کی رضا اور دین مصطفوی سے وفامطلوب ہوتی ہے، وہ سیاسی مجبوریوں کی بنا پر حق وصداقت کی قربانی نہیں دیا کرتے، یہی علماء ربانی کی نشانی اور علمبردار ان حق کا مشن ہوتا ہے، اگر وہ اس پہلو میں کوتاہی کر جائیں تو وہ علماء ربانی شمار نہیں ہوتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی حکمران پوری دنیا کے اسلامی حکمرانوں میں اپنا ایک دینی تشخص رکھتے ہیں، سخاوت وتبلیغ دین میں کوئی ان کا مقابلہ کرہی نہیں سکتا، وہ اپنی ذاتی زندگیوں میں بھی ان شاء اللہ صالح لوگ ہیں، ان کا سب سے بڑا اعزاز ان کا حرمین شریفین