کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 199
سعودی عرب میں چار بادشاہوں کے دور میں جب بھی کوئی علمی منصوبہ تشکیل پایا، سب سے پہلے شیخ ابن باز ہی کو اس کا رئیس بنا یا گیا، وہ منصبی لحاظ سے بھی سب سے اونچی اور کلیدی شخصیت تھے، ذرا ایک نظر ان کے مناصب پر ڈالیے اور پھر شیخ کی عالمانہ وجاہت کا حساب لگائیے، شیخ کی عمر ستائیس سال تھی جب آپ کو خرج کا قاضی بنایاگیا، مسلسل چودہ سال تک آپ اس منصب جلیلہ پر فائز رہے۔ 1351سے 1381ھ تیس سال تک مختلف کالجوں میں لیکچرار رہے، جہاں آپ علوم شرعیہ، حدیث وفقہ اور عقائد وتوحید جیسے مضامین پڑھاتے رہے۔ 1381ھ میں جب مدینہ یونیورسٹی کی تشکیل ہوئی تو آپ اس کے وائس چانسلر مقرر ہوئے، جہاں 1390ھ دس سال تک آپ اس عہدے پر فائز رہے، اسی سال آپ کو مدینہ یونیورسٹی کا چانسلر بنا دیا گیا، پانچ سال تک آپ چانسلر رہے۔ 1395ھ میں سعودی عرب میں ادارات بحوث علمیہ، افتاء دعوت وارشاد کی تشکیل کی گئی تو شیخ ابن باز اس کے پہلے رئیس مقرر کیے گئے، جن کا مرتبہ حکومت میں وزیر کے برابر تھا۔ 1414ھ میں آپ کو سعودی عرب کا مفتی اعظم بھی مقرر کردیاگیا۔ اس کے علاوہ علماء کبار کی تنظیم کا سیکرٹری بھی بنا دیا گیا۔ آخر دم تک آپ مدینہ یونیورسٹی کی ورکنگ کمیٹی کے رکن بھی رہے۔ دعوت اسلامی کی نشر واشاعت کے لیے ترتیب دی گئی کمیٹی کے بھی آپ رکن تھے۔ رابطہ عالم اسلامی کی مجلس اعلیٰ کے بھی آپ سربراہ تھے۔رابطہ کی ذیلی تنظیم المجمع الفقہ الاسلامی کے بھی آپ سربراہ تھے۔ غرضیکہ سعودی عرب میں حکومتی سطح پر یاغیر سرکاری سطح پر جب بھی کوئی مجلس تشکیل دی گئی شیخ ابن باز اس کے سربراہ مقرر کیے جاتے، اس طرح مسلسل 50 سال تک آپ نے شب وروز علم کا نور پھیلایا، تاریخ میں ایسی جامع صفات ہستی کوئی اور نظر نہیں آتی۔ آپ کی اسی علمی وجاہت کی وجہ سے 1404ھ میں آپ کو شاہ فیصل ایوراڈ دیاگیا۔ انہی خصوصیات کی وجہ سے آپ صرف سعودی عرب ہی نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کی قابل احترام شخصیت تھے، ان کی ذات مرجع خلائق تھی، اتنے بڑے مناصب پر فائز ہو نے کے باوجود ان کے ہاں تکبر نام ونمود اور خواہشات کا ان کی کتاب زندگی میں کوئی ورق ہی نہ