کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 198
والعلانیۃ) اللہ سے ہر حالت میں ڈرنے کی مسنون وصیت ضرور فرماتے۔
فضائل ومزیات کا مجسمہ:
شیخ رحمہ اللہ میں اسلاف کی وہ ساری خصوصیات پائی جاتی تھیں، جن کاتذکرہ ہم کتابوں میں پاتے ہیں، حسد وعداوت، تنگ دلی، غیبت، پیٹھ پیچھے برائی، مخالف کے بارے میں غیر محتاط ہو جانا وغیرہ، الحمد للہ شیخ اس قسم کی عادات سیئہ سے کو سوں دور تھے، ہم بیس برس سے شیخ کا ذکر سنتے چلے آرہے ہیں، اتنی ہی مدت سے ان سے ذاتی تعارف بھی حاصل رہا ہے، لیکن ہم نے ان کے بارے میں یہ نہیں سنا کہ انہوں نے کسی مسلمان کو اپنی زبان سے یا قلم سے دکھ پہنچا یا ہو، حق بات کو بغیر کسی مداہنت کے بیان کرنا تو اہل علم کا فرض ہے، لیکن ذاتی مخاصمت یا حسد وعداوت کو علمی لبادہ اڑھانا شیخ کی عادت ہر گز نہ تھی، حالانکہ جس مقام رفیع پر شیخ رحمہ اللہ فائز تھے اس کے باعث معاصرانہ چشمک، علمی وجاہت، منصبی رفعتیں اور اس طرح کے بے شمار حسد وعداوت کے اسباب موجود ہوتے ہیں، لیکن یہ اللہ کا درویش بندہ کبھی بھی راہ راست سے نہیں بھٹکا، ہمیشہ حق بات کہی، حق ہی کا دفاع کیا، اپنی ذات ومنصب کو کچھ حیثیت نہیں دی، صرف اللہ کی رضا اس کے پیش نظر رہی، اس نے کبھی کسی کی مخالفت کی پرواہ نہیں کی اور نہ ہی کسی کو انتقام کا نشانہ بنایا، وہ اس آیت کریمہ کی سچی تصویر تھے، اور جو لوگ اللہ کی خوشنودی کی خاطر صبر کرتے ہیں، نماز کی پابندی کرتے ہیں، اللہ کے رزق سے چھپا کر یا ظاہر کر کے خرچ کرتے ہیں اور برائی کا بدلہ بھلائی سے دیتے ہیں، ان کا انجام بہت قابل رشک ہوگا۔
تواضع وانکساری:
شیخ ابن باز رحمہ اللہ اپنی علمی وجاہت، تقویٰ وطہارت، خدا پر سی وخداترسی، سخاوت ودریا دلی، بے مثال حافظے، عالمانہ وجاہت کی وجہ سے سعودی عرب کی سب سے بڑی علمی شخصیت تھے، منصبی لحاظ سے دیکھا جائے تو پوری تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسا عالم ربانی ملے گا جسے تمام مناصب حاصل ہوئے ہوں، آپ ایک نظر دیکھیں تو محسوس ہو گا کہ پچھلے پچاس سال سے