کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 197
قیم کی کتب کی وسیع پیمانے پر اشاعت کا بیڑہ اٹھایا تھا اور علم وعمل کے ان سمندروں سے سیرابی کا موقع فراہم کیا، عالم عرب میں یہ سہرا حکومت سعودی عرب کے سر سجتا ہے، خاص طور پر شیخ رحمہ اللہ اس پہلو پر خصوصی توجہ فرماتے تھے، بالخصوص فتاویٰ شیخ الاسلام کی تدوین واشاعت شیخ کا بہت بڑا صدقہ جاریہ ہے۔
دسترخواں کی وسعت:
شیخ رحمہ اللہ بالعموم ریاض تشریف رکھتے تھے، وہاں بھی آپ کی رہائش گاہ اور دفتر مہمانوں سے بھرا رہتا تھا، دوپہر کا کھانا اجتماعی ہوتا تھا، یہی حال ان کی طائف والی رہائش گاہ کا تھا، مکہ مکرمہ میں آپ کی العزیزیہ میں کوٹھی پر بھی بڑا وسیع دستر خوان ہوتا تھا، وہاں ایک دو دفعہ جانے کا اتفاق بھی ہوا، ایک دن حرم مکی میں عصر کی نماز میں شیخ سے ملاقات ہوئی، تعارف کے ساتھ ہی فرمایا تغد معنا یعنی کل ہمارے ساتھ کھانے میں شریک ہوجائیں، وہاں باتیں ہوں گی، اگلے دن دوپہر کو شیخ کی رہائش گاہ پر پہنچا تو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ بے شمار دنیا وہاں موجود ہے، کوٹھی کا لان ظہر سے پہلے ہی بھرا ہوا ہے اور دل میں یہ بات آئی کہ شیخ نے اتنے زیادہ لوگوں کو بھی بلارکھا ہے تو ہماری باری کب آئے گی، نماز کی ادائیگی کے بعد دسترخواں لگا تو بے شمار لوگ دستر خواں پر جمع ہوگئے، جوں جوں کھانا کھاتے گئے لوگ نکلتے گئے، آخر میں یہ دیکھ کر بہت خوشی بھی ہوئی اور حیرت بھی کہ صرف چند گنے چنے لوگ رہ گئے، اس طرح شیخ کے ساتھ کھاناکھانے اور گفتگو کرنے کے لیے خاصاوقت مل گیا، بعد میں پتہ چلا کہ یہ سارے لوگ صرف کھانے کے وقت آتے ہیں اور فارغ ہو کر چپکے سے رخصت ہو جاتے ہیں، کیونکہ ان میں اکثریت غریب الدیار لوگوں کی ہوتی ہے، جو یہاں کسی کفیل کے ہاں کام کرتے ہیں یا حج کے لیے آئے ہوتے ہیں، خاص طور پر ایام حج میں شیخ کی کوٹھی پر حجاج کا قبضہ ہوتا ہے اور وہ بڑی دریا دلی سے حق مہمان نوازی وصول کرتے ہیں، اگر کوئی شیخ کا ملازم کسی پر سختی کرتا تو شیخ اسے روک دیتے ہیں کہ یہ لوگ اللہ کے مہمان ہیں، ان کی مہمان نوازی سے اللہ خوش ہوتا ہے، جو بھی شیخ سے ملاقات کرتااسے بوقت رخصت( اتقوا اللّٰہ فی السر