کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 196
سے محفل سجائی جا رہی ہے وہ ہستی بھی کئی لحاظ سے تاریخ کی منفردہستی ہے، میری مراد شیخ الاسلام، مفتی اعظم، ولی کامل، مجتہد العصر علامہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے ہے، جو 13 مئی کی صبح اللہ کے جوار رحمت میں پہنچ گئے ہیں اور ان کے داغ مفارقت دے جانے سے عالم اسلام اپنے کو یتیم سمجھ رہاہے۔
ایک ہمہ گیر شخصیت:
شیخ رحمہ اللہ کی ذات اتنی جامع الصفات تھی کہ اس کا صحیح احاطہ ممکن ہی نہیں ہے، رہی ان کی خدمات تو ان کا حساب بھی رب کائنات ہی کر سکتا ہے اور وہی انہیں ان کا پورا اجر دینے پر قادر ہے، شیخ ابن باز صحیح معنوں میں اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھے، ان کی ذات شمع ہدایت تھی جس سے ہر وقت علم وعمل کی روشنیاں بکھرتی تھیں۔
حاتم وقت ہستی:
شیخ رحمہ اللہ جو د وسخاوت کا سرچشمہ تھے وہ ایسے درویش تھے کے جس کے حضور دنیا کے حکمران بھی عقیدت سے بیٹھنا سعادت سمجھتے تھے، علم کے ساتھ ساتھ وہ عمل کا بھی مجسمہ تھے، تقویٰ وخشیت الٰہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھا، وہ دنیا داری اور مال وزر کی ہوس سے کوسوں میل دور تھے، ان کی دریا دلی، سخاوت و ہمدردی اور حسن اخلاق کی کئی کہانیاں مشہور ہیں، کیونکہ ان کی جوود وسخاکے دروازے ہر کہہ وماہ کے لیے ہر وقت کھلے رہتے تھے، وہ بلا شبہ وقت کے حاتم طائی تھے، لا تعداد ادارے شیخ رحمہ اللہ کے ذاتی خرچ سے چل رہے تھے، بے شمار مبلغین کے ماہانہ وظائف کا انتظام کر رکھا تھا، شیخ کے ملاقاتیوں میں سے بہت سے ضرورتمند لوگ بھی ہوتے تھے، جن کی ضروریات سن کر سیکرٹری کو اسی وقت چیک جاری کرنے کی ہدایت دے دیا کرتے تھے۔
کتب اسلامیہ کی وسیع پیمانے پر اشاعت کا اہتمام:
دینی کتب کی اشاعت پر بھی آپ نے بے پناہ پیسہ خرچ کیا، جس طرح بر صغیر میں علمائے اہل حدیث اور خاص طور پر خاندان غزنوی نے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ اور امام ابن