کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 193
شیخ رحمہ اللہ 1330ھ میں ریاض میں پیدا ہوئے اور حفظ قرآن کریم کے علاوہ وقت کے معروف علماء کرام سے شرعی علوم میں مہارت حاصل کی، علوم شرعیہ سے فراغت کے بعد تقریباً 14سال تک آپ الخرج میں قاضی کی حیثیت سے خدمت انجام دیتے رہے، بعد ازاں تدریس کی جانب آپ کا رجحان ہوگیا، چنانچہ ریاض کلیۃالشریعہ میں فقہ، عقائد اور حدیث کی تدریس میں کچھ عرصہ مشغول رہے، 1381ھ میں حکومت کی جانب سے آپ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے رئیس عام کے منصب پر فائز کیے گئے، بعد ازاں 1395ھ میں آپ کو ادارۃ بحوث علمیہ والافتاء والد عوۃ والارشاد کے رئیس عام کی حیثیت سے ریاض منتقل ہونا پڑا اور 1414ھ میں آپ ملک کے مفتی اعظم بنا دیے گئے، اس کے علاوہ آپ کبار علماء کمیٹی کے رکن، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کی ہائی کمان کے رکن، رابطہ عالم اسلامی کی مجلس تاسیسی کے صدر، مساجد کی عالمی مجلس اعلیٰ کے رئیس، مجمع الفقہی الاسلامی کے رئیس کی حیثیت سے بھی اسلامی دعوت کا فریضہ انجام دیتے رہے، شیخ رحمہ اللہ کی علمی گہرائی کا یہ عالم تھا کہ صحاح ستہ کی تقریباً اکثر احادیث کے متون مع سند آپ کو مستحضر رہتے، رجال حدیث پر بے دریغ گفتگو فرماتے، علم حدیث کے علاوہ فقہی امور پر آپ کو بے پناہ عبور حاصل تھا۔ اگر کسی شخصیت کے مقام ومرتبہ کا اندازہ اس کے علم سے کیا جاتا ہو تو بلاشبہ سماحۃ الشیخ اس دور کے یقینا سب سے بڑے عالم تھے اور اگر کسی کی فضیلت عوام میں اس کی مقبولیت سے دیکھی جاتی ہو تو بلاشبہ سماحۃ الشیخ کو نہ صرف عربی معاشرے میں بلکہ ساری دنیا کے مسلمانوں میں سب سے زیادہ مقبولیت حاصل رہی، اور اگر کسی کی قدر ومنزلت کا معیار ہم اس کی بے لوثی اور بے باکی کو قرار دیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ سماحۃ الشیخ کی شخصیت اس دور کی سب سے زیادہ بے باک اور بے لوث قراردی جائے گی، سماحۃ الشیخ نے ہمیشہ امت کی فلاح وبہبود اور کتاب وسنت کی اتباع میں لگی لپٹی رکھے بغیر بات کی، کسی فتوی کے موقع پر انہوں نے کبھی نہیں سوچا کہ اس سے کسی کی حمایت یا مخالفت ہوگی، فتوی کے معاملے میں وہ تمام تحفظات کو بالائے طاق رکھ کر حمایت یا مخالفت کے تمام خدشات کو ذہن سے جھٹک کر نفع