کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 192
نازل ہوجاتی، آپ تڑپ جاتے اور حتی المقدور ان کی مادی اور معنوی امداد کرتے چلے جاتے، افغانستان، بوسنیا، چیچنیا، سوڈان، فلسطین، کشمیر، کوسوو کے مظلوم مسلمانوں کا آپ نے بھر پور ساتھ دیا، آپ کی آواز پر سعودی عرب کی حکومت اور عوام لبیک کہتے اور بھر پور تعاون کرتے، سعودی عرب کے شاہی خاندان سے آپ کے نہ صرف ذاتی مراسم تھے بلکہ آپ ملک عبدالعزیز سے شاہ فہد بن عبدالعزیز تک ہر بادشاہ کی نگاہوں میں انتہائی قابل احترام وتحسین سمجھے جاتے تھے، شاہی قربت نے آپ میں کسی بھی قسم کے غرور، تکبر یا تعلي کو جگہ نہیں دی بلکہ اس کے برعکس آپ کی طبعیت میں انتہائی سادگی، عجزوانکساری نمایاں رہی اور عوام کے ساتھ بھی آپ کا تعلق انتہائی مضبوط اور مخلصانہ رہا۔ آپ سعودی عرب میں سب سے اہم ترین دینی منصب پر فائز تھے، اور تقریباً ساری زندگی آپ نے سعودی عرب میں ہی گزاردی مگر آپ کے علم وعمل اور فیاضی کا شہرہ دنیا کے تمام علمی اور دینی حلقوں میں سنا جانے لگا، انبیاء کرام کا ورثہ اگر کسی کو دیکھنا ہوتا تو وہ شیخ رحمہ اللہ کی مجلس میں جا بیٹھتا۔
جہاں شیخ رحمہ اللہ بیک وقت دنیا کے مختلف گوشوں سے آنے والے امیر وغریب، بادشاہ وفقیر کو حسب طلب نوازتے، سعودی حکومت ہو یا عوام کو ان میں یکساں قدر ومقبولیت حاصل تھی، حکومت آپ کے مشوروں اور فتاویٰ کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتی اور ان کی تعمیل کرواتی، بادشاہ بھی آپ کو والد نا سے مخاطب کرتے اور سعودی عوام کے علاوہ دنیا کے اکثر مسلمان خصوصاً علماء کرام آپ کو والدنا کہنے میں انتہائی فخر محسوس کرتے، آپ کے تقویٰ، للہیت اور زہد وتقویٰ کہ یہ عالم تھا کہ جو شخص آپ سے جس قدر قریب ہوتا آپ کی صحبت میں جس قدر زیادہ وقت گزارتا، وہ اسی قدر آپ کا گرویدہ ہوجاتا، جو دوسخامیں آپ اپنی مثال آپ تھے، مدت دراز سے قریب رہنے والوں کاکہنا ہے کہ ہم نے سماحۃ الشیخ کو کبھی اپنے اہل خانہ کہ ساتھ کھانا کھاتے نہیں دیکھا، دوپہر ہو یا شام آپ کے گھر عام دستر خوان بچھایا جاتا، جس پر بیک وقت ساٹھ ستر کے قریب مہمان ہوتے، ان میں امیر غریب، مسافر ومالدار سبھی شامل ہوتے اور آپ ہمیشہ ان مہمانوں کے ساتھ کھانا تناول فرماتے۔