کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 191
جب بھی شیخ رحمہ اللہ کی مجلس میں حاضری کی سعادت نصیب ہوتی اور جب تک ہم آپ کی مجلس میں بیٹھے رہتے، تو اپنے نصیب پر فخر کا احساس ہونے لگتا، اور اگر شیخ سے ہم کلام ہونے کی سعادت نصیب ہوجاتی تو پھر محسوس ہوتا کہ:
کلاہ دہقان بآفتاب رسید
شیخ رحمہ اللہ کی نابغہ ء روز گار شخصیت قطعاً کسی تعارف کی محتاج نہیں، آپ کی تابندہ حیات کے روشن کارنامے موجودہ صدی کے ہر سال، ہرماہ اور ہر دن کے ہر لمحے پر پھیلے ہوئے ہیں، موجودہ دور میں جبکہ امت کا دامن ایسے علماء سے تقریباً خالی ہے جن میں علم کی گہرائی کے ساتھ تقوی اور للہیت، اخلاص ومحبت، حق گوئی،بے باکی زہد واستغناء کا عنصر پایا جاتا ہے، شیخ رحمہ اللہ کا انتقال اس امت کے حق میں ایسا عظیم خسارہ بن جاتا ہے جس کی تلافی موجودہ دور میں ناممکن دکھائی دیتی ہے، آپ کے انتقال سے جہاں سارا عالم اسلام ایک عظیم دینی راہنما، امت کے تمام مسائل میں مرجع خلائق ہمدرد وغمگسار شخصیت سے محروم ہوگیا، وہیں دنیا کے نقشے پر پائی جانے والی سلفی فکر کی حامل تمام جماعتیں، تحریکیں، ادارے اور مدارس اپنے سچے خیر خواہ سے محروم ہوگئے۔
صحیح بخاری کی روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت رکھتا ہے تو جبرئیل کو بلاتا ہے اور ان سے فرماتا ہے کہ میں فلاں آدمی سے محبت رکھتا ہوں، لہٰذا تم بھی اس کو محبوب رکھو، جبرئیل بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں، پھر آسمان میں منادی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت رکھتا ہے، سو تم سب بھی اس سے محبت رکھو، چنانچہ آسمان والے بھی اس سے محبت رکھنے لگتے ہیں، پھر اس بندے کے لیے زمین میں بھی مقبولیت عطا کردی جاتی ہے۔
شیخ رحمہ اللہ کی مقبولیت کا اندازہ مذکورہ بالا حدیث کی روشنی میں بآسانی کیا جاسکتا ہے، بظاہر آپ سعودی عرب میں رہتے تھے مگر دنیا جہان کے مسلمانوں کے دلوں پر آپ کی محبت، قدرومنزلت اور علمیت کا سکہ چلتا تھا، دنیا کے کسی بھی گوشے میں آباد مسلمانوں پر کوئی مصیبت