کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 190
علم وعمل کا آفتاب غروب ہو گیا (از:....محمد حفیظ اللہ العمری) یہ دنیا حادثات سے مرکب ہے، چھوٹے بڑے حادثات روز مرہ کا معمول ہیں، انسان کی فطرت میں یہ عنصر داخل ہے کہ وہ روز مرہ پیش آنے والے واقعات کو بآسانی انگیخت کرلیتا ہے مگر بعض اوقات ایسے حادثات بھی رونما ہوجاتے ہیں جن کے وجود سے ساری زمین کانپ جاتی ہے، نظام زندگی تہس نہس ہو جاتا ہے، اللہ کی ایک بڑی مخلوق اس سے متاثر ومغموم ہو جاتی ہے۔ حضرت الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ کی وفات کا سانحہ بھی کم وبیش اسی کیفیت کا حامل رہا ہے، آپ کی وفات سے اپنے ہی نہیں غیر بھی متاثر نظر آتے ہیں، جنہوں نے شیخ رحمہ اللہ کا زندگی میں نہ کبھی دیدار کیا اور نہ ہی آپ سے ملاقات کی اگر وہ بھی غم کی تصویر بن جائیں تو پھر ان لوگوں کے رنج وافسوس کا کیا عالم ہوگا جنہوں نے شیخ رحمہ اللہ کی صحبت سے فیض اٹھایا ہو، شیخ رحمہ اللہ کی جوتیاں سیدھی کی ہوں، جو لمحہ لمحہ شیخ کے لطف وکرم، شفقت ومہربانی اور اخلاق عالیہ کا مشاہدہ کر چکے ہوں، راقم کو عرف عام میں شیخ کی شاگردی کی ساعت تو حاصل نہ ہو سکی مگر مدینہ منورہ میں طالبعلمی کے دور میں پھر برطانیہ آنے کے بعد مختلف اوقات میں جب بھی ریاض یا طائف جانا ہو تا تو ہمارا اولین مقصود شیخ رحمہ اللہ کی خدمت عالیہ میں حاضری ہوا کرتا، اس بہانے شیخ رحمہ اللہ کو آپ کی مجلس عمومی اور خصوصی میں، درس کے دوران، دارالافتاء کی مسند صدارت پر، ہر شکل میں اور ہر پوزیشن میں دیکھنے، سننے اور دیکھتے ہی دیکھتے رہنے کے کئی بار مواقع نصیب ہوئے: ؎ حاصل رہا ہے مجھ کو ملاقات کا شرف مٹی کا ایک دیاتھا سورج سے فیض یاب