کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 189
کے محکمہ قضاء اور ان کے عدالتی نظام کا مطالعاتی دورہ کراتی ہے، اسی طرح سعودیہ کے نظام تعلیم کو دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے، تھوڑے سے عرصے میں جس طرح تعلیمی انقلاب بپا ہوا ہے اس میں علماء کا خصوصی کردار ہے، اسلامی علوم کی تعلیم اور اسلامی موضوعات پر تحقیق وتصنیف کے حوالے سے جس پیمانے پر کام ہورہا ہے اس نے بڑے بڑے مسلمان ملکوں کو پیچھے چھوڑدیا ہے سعودی یونیور سٹیوں میں طلبہ کی دینی واخلاقی زندگی اور ان کے مذہبی رجحانات کا جائزہ لینے سے واضح ہوتا ہے کہ وہاں اب بھی ایسے نوجوانوں کی بڑی تعداد موجود ہے جو علم کی پیاس بجھانے کے لیے سب کچھ خرچ کرنے کے لیے تیار ہیں، یہ علماء ہی کی کاوش ہے کہ دین واخلاق اور عقیدہ ومروت کو زندگی کے تمام شعبوں میں دخل حاصل ہے۔ شیخ عبدالعزیز بن باز سر خیل علماء تھے اور اس حکمت عملی کی ترتیب وتنفیذ میں انہیں بنیادی حیثیت حاصل تھی مدینہ یونیورسٹی اور دار الافتاء کے ذریعہ ان کا فیض ہمیشہ جاری رہے گا۔ ایک اور پہلو معاشرتی اصلاح ہے، غالباً پورے عالم اسلام میں سعودی عرب واحد ملک ہے جہاں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا انتظام ہے، اس ادارے کے تحت معاشرہ میں لا دینی رجحانات کا سد باب ہوتا ہے اور معاشرہ بحیثیت مجموعی دینی روح پر قائم ہے، انفرادی طور پر انحراف ہوسکتا ہے لیکن مجموعی طور پر سعودی معاشرے پر خیر غالب ہے، یہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو نافذ کر نے کی برکات ہیں، اسے قائم رکھنے میں بھی اہم کردار علماء کا ہے، شیخ عبدالعزیزؒ نے لمبی عمرپائی اللہ تعالیٰ نے ان کے کام میں برکت ڈالی اور وہ سعودی معاشرے کے لیے ایک مربی کی حیثیت سے زندہ رہے، تعلیم، نظام عدل اور اصلاح معاشرہ کے میدانوں میں ان کا قائدانہ رول تھا، شیخ سعودی معاشرے کے لیے تو خصوصی حیثیت کے حامل تھے لیکن ان کی عالمی حیثیت بھی مسلم تھی، وہ عالم اسلام کے مفتی تھے اور ہر دینی وعلمی مسئلہ پر انہوں نے مسلمانوں کی راہنمائی کی، عالمی دعوت کے سلسلے میں ان کی کوششیں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی، مسلم اقلیتوں کے لیے دار الافتاء اور رابطہ عالم اسلامی نے جتنی مساعی کی ہیں ان میں قائد انہ راہنمائی اور علمی سرپرستی شیخ عبدالعزیز بن باز ہی کی تھی، کرہ ارض پر پھیلے ہوئے داعی اور سر گرم اسلامی تنظمیں شیخ کی باقیات الصالحات ہیں۔ الہم اغفرہ وارحمہ۔