کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 188
کام کیا، معاشرے کی اصلاح، انفرادی اخلاق کے استحکام اور اجتماعی تربیت کے ذریعہ مسلمانوں کو اللہ کے دین سے وابستہ رکھا، ان کے روحانی اور علمی اثرات کو تاریخ اسلامی میں دیکھا جا سکتا ہے، ان حضرات نے دکھ اٹھا کر تکالیف برداشت کر کے اور ظلم سہہ کر بھی حق بات کہی اور جادہ ء حق پر قائم رہے، دوسرے گروہ نے اہل اقتدار کے ساتھ ساز گاری پیدا کی اور ان کے ساتھ شامل ہو کر اپنا کام کیا، اس گروہ میں دوقسم کے لوگ تھے، ایک وہ تھے جو اہل اقتدار کی خواہشات کے مقابلے میں قائم نہ رہ سکے اور عافیت کی راہ اختیار کی جبکہ کچھ اہل عزیمت ایسے بھی تھے جو اہل اقتدار کے ساتھ شامل ہو کے بھی دینی معاملات میں کسی مفاہمت کے لیے تیار نہ تھے، امام احمد بن حنبلؒ جیسی شخصیتیں ہماری تاریخ کی روشن مثالیں ہیں۔ شیخ عبدالعزیز ابن باز رحمہ اللہ کا تعلق علماء کے اس گروہ سے ہے جنہوں نے اقتدار کے ساتھ تعلق رکھتے ہوئے بھی دینی معاملات پر مفاہمت سے گریز کیا، وہ علماء حق کے اس قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں، جنہیں حق گوئی سے کوئی شے نہ روک سکی جو لوگ آل سعود کی تاریخ سے واقفیت رکھتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ ان کی تحریک دراصل اس مفاہمت کی مرہون منت ہے جو شیخ محمد بن عبدالوہاب اور آل سعود کے درمیان قرار پائی، اس کی بنیاد دین کا خالص تصور ہے جو قرآن وسنت پر مبنی ہے، آل شیخ اور آل سعود کی مفاہمت درا صل علم وتقویٰ کو اقتدار پر غالب کر نے کی کامیاب کوشش تھی، دین کا یہ غلبہ علم واقتدار کی کشمکش اور تصادم سے نہیں بلکہ باہمی مفاہمت سے قائم ہوا، یہی وجہ ہے علماء نے اقتدار پر قبضہ کرنے کی بجائے اس کی اصلاح کو اپنا شعار بنایا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ علماء نے کلمہ حق کہنے اور اصلاح کی کوشش سے کنارہ کشی اختیار کر لی، علماء کی صفوں میں ایسے لوگ ہمیشہ رہے جو یہ فریضہ ادا کر تے رہے۔ شیخ عبدالعزیز ابن بازؒ حق گوئی، استقامت اور عزیمت کی درخشاں مثال تھے، اس مؤقف کا بڑا فائدہ امت مسلمہ کو پہنچا، اس کی وجہ سے معاشرہ میں کام کرنے کا موقعہ ملا، سعودی عرب کا نظام عدل علماء کے دم سے قائم ہے، میرے علم میں ہے کہ اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد ججوں اور وکیلوں کے لیے جو تربیتی کورس منعقد کرتی ہے انہیں خصوصی طور پر سعودیہ