کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 187
شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ ایک عالم ربانی
(از:....ڈاکٹر خالد علوی، صدر اسلامک انسٹی ٹیوٹ، برمنگھم)
شیخ عبدالعزیز رحمہ اللہ کی وفات عالم اسلام کے لیے ایک گہرا صدمہ ہے، شیخ کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں اور ان سے ملنے والے ان سے فیض حاصل کر نے اور ان کی فیاضی سے متمتع ہونے والے انہیں ان حوالوں سے یاد کریں گے، میں ذاتی طور پر ان کے فیض سے مستفیض ہوں، اس لیے مجھے احسان مندی کے جذبات کے ساتھ انہیں خراج عقیدت پیش کرنا ہے، شیخ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے میں مسلمانوں کی تاریخ کا حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہوں، مسلمانوں کی تاریخ کئی اعتبار ات سے روشن ہے اور اسے اقوام عالم کی تاریخ میں ایک امتیاز حاصل ہے، ہماری تاریخ کا سنہری دور تاریخ عالم میں اپنی نظیر آپ ہے، یہ وہ دور ہے جس میں علم، تقویٰ، تدبر اور تنظیم کے اوصاف صاحب اقتدار شخصیت میں جمع تھے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اس کا مثالی نمونہ تھی اور خلفائے راشدین اس مثالی نمونہ کے قابل رشک متبع تھے، خلافت راشدہ کے بعد علم وتقویٰ اور تدبر وتنظیم دو دائروں میں تقسیم ہوگئے، حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی کوشش ان اوصاف کو یکجا کرنے کے لیے تھی جو بد قسمتی سے کامیاب نہ ہوسکی، اس کے بعد ایک کاوش ہمیں محمد بن نفس الذکیہ کی تحریک میں نظر آتی ہے جس کا انجام بھی حسین رضی اللہ عنہ کے انجام سے مختلف نہ تھا، اہل اقتدار کی ترجیحات بدل گئی تھیں اس لیے ان کے اوصاف وخصائل میں بھی علم وتقویٰ کو وہ مقام حاصل نہ تھا جو مطلوب تھا۔
یہ تھے وہ حالات جن میں اہل علم وتقویٰ نے استحکام دین اور اصلاح امت کے لیے منصوبہ بندی کی، علماء امت اور صلحاء ملت نے دو مختلف طریقوں پر کام کیا، ایک گروہ نے اہل اقتدار سے قطع تعلقی کر کے انتہائی بے غرضی اور بے لوثی سے دین وملت کی بقا وصلاح کے لیے