کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 186
بڑے وظائف مقرر فرمائے، اکثر غریب ممالک کے علماء کو بھی اتنی تنخواہ نہیں ملتی تھی، آپ قرآن و سنت کی تعلیم کے ایک سورج تھے، جو جزیرہ عرب میں طلوع ہوا اور پورے عالم کو اپنے علم وعمل سے منور کر گیا، شیخ رحمہ اللہ حرمین کے ایک ایسے علمی چشمہ تھے جس سے نہ صرف حرمین کے عوام بلکہ پوری دنیا سے آنے والے قرآن وسنت کے شیدائی فیض یاب ہوتے رہے، شیخ ایک قائد تھے جنہوں نے دور حاضر میں مسلمانوں کی دینی قیادت کرتے ہوئے ان کو دینی علوم کی اہمیت اور ان کے ثمرات سے آشنا کرایا، بلکہ وہ ایک غازی بھی تھے، کیونکہ انہوں نے اخلاص،فہم و فراست اور اپنی وسعت قلبی سے مسلمانان عالم کے دل فتح کیے ہوئے تھے، اگر چہ شیخ مرحوم اب ہم میں نہیں ہیں لیکن ان کے علم نافع اور کار خیر کے ثمرات سے ہم ہمیشہ سیراب ہوتے رہیں گے، یہ حقیقت ہے کہ شیخ کی وفات پر صرف عرب قوم ہی غمزدہ نہیں ہے بلکہ پوری امت مسلمہ شیخ علیہ الرحمۃ کی جدائی میں مغموم ہے اور خاص طور پر طلباء کا وہ طبقہ جن کو شیخ محترم اپنی جیب خاص سے علمی وظائف دیا کرتے تھے اور وہ علم کی دولت حاصل کر رہے تھے، ایسے بے شمار طلباء تھے جو ان کے مالی تعاون سے پوری دنیا میں عام طور پر اور سعودیہ میں خاص طور پر مختلف یونیور سٹیوں میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔
اللہ کرے شیخ کی وفات کے بعد سعودی عرب ان وظائف کو جاری رکھے، دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ شیخ مرحوم کو اپنی وسیع رحمت میں لے اور ان کی دینی خدمات کو قبول فرمائے اور ان کو اجر عظیم عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے اور امت مسلمہ کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔ آمین۔
٭٭٭