کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 184
کاروائی کی جرات نہ ہوئی، کیونکہ وہ کسی حکومت یا شخصیت میں پائی جانے والی کمزوریوں پر صرف تنقید ہی نہیں بلکہ ان کی خوبیوں کا کھلے دل سے اعتراف کرنے کے عادی تھے اور اس حکمت کا فائدہ یہ ہوتا کہ کسی خلاف طبیعت واقعہ پر فوری رد عمل کے بجائے اس کے مختلف پہلوؤں پر غور کر کے اپنی رائے کا اظہار فرماتے اور اس کا ایک فائدہ یہ ہوتا کہ ذمہ داران آپ کو اپنا مخالف سمجھنے کے بجائے ہمدرد اور ناصح سمجھا کرتے، شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ شیخ صاحب کسی ذاتی غرض اور لالچ کے بغیر یہ کام کیا کرتے جو آج کل لوگوں میں عموماً نایاب ہے، اور یہ وہ وصف ہے جو علماء اور قائدین میں آج کل شاذ ونادر ہی دکھائی دیتا ہے، اگر کوئی ناپسند یدہ بات ہوجائے یا اپنی مرضی کے خلاف کوئی واقعہ ہو جائے تو اس کے رد عمل میں گویا پھٹ پڑتے ہیں اور اگر کبھی تنقید کی ضرورت پیش آجائے تو اصول وضوابط اور آداب وشرافت کو پامال کرڈالتے ہیں، اور کبھی کسی کی گرفت کرتے ہیں تو اس طرح کہ گویا اس میں کوئی خیر وبھلائی کا پہلو ہے ہی نہیں، لیکن شیخ محترم نے حکومت کی بعض پالیسیوں پر اعتراض اور تنقید کے باوجود حکومت کی خوبیوں کا اعتراف اورحتی الامکان اس کی اصلاح کی کوشش کی، جس کا براہ راست یا بالواسطہ نتیجہ یہ نکلا کہ سعودی حکومت نے عالم اسلام کے لیے جو گرانقدر خدمات انجام دیں اس کی دور حاضر میں کوئی مثال نہیں پیش کی جاسکتی اور شیخ محترم خود کئی ایسے اداروں کی سرپرستی کرتے رہے جن کا فائدہ دنیا کے مختلف مسلمانوں کو پہنچتا رہا، یقینا اگر شیخ حکومت پر صرف تنقید کی پالیسی اپناتے یا اس کے حریف بن جاتے تو اس کا فائدہ تو شاید ہی ہوتا البتہ عالم اسلام ان مذکورہ فائدوں سے محروم رہتا، شیخ کے اس طرز عمل میں ان راہنماؤں کے لیے زبردست نمونہ ہے جو مختلف ممالک میں ہر دور حکومت میں اعتراض، تنقید اور حریفانہ پالیسی اپنائے رہتے ہیں اور سالہا سال کے تجربات شاہد ہیں کہ ان کا یہ عمل کسی بھی طور پر مفید نہیں، اگر اس کے بجائے وہ حکومت کے مفید پروگراموں میں شامل ہو تے اور اپنے طرز عمل کو اصلاحی بناتے تو نسبتاً وہ اپنے ملک کے لیے اسلامی اعتبار سے کچھ کر سکتے، لیکن اس کے لیے غیر معمولی اخلاص، سنجیدگی اور بردباری کی ضرورت ہے، اللہ کی بے پایاں رحمتیں ہوں ان پر....