کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 183
پائے گئے اور خود ان کا اپنا ذاتی گھر نہیں تھا۔
اگر حکومت نہ دیتی تو کرایہ پر رہنے کے سوا چارہ نہیں لیکن وہ دنیا کے کروڑوں انسانوں کے دلوں پر حکومت کرتے رہے، زندگی میں انہوں نے بیرون سعودیہ کا سفر تک نہ کیا لیکن دنیا کے ہر براعظم میں ان کے عقیدت مندوں کی تعدادلاکھوں سے متجاوز ہے جس کی مثال موصوف کی وفات کی خبر سے لگائی جاسکتی ہے، دنیا کے ہر براعظم میں لوگوں نے یوں محسوس کیا کہ گویا ایک سہارا تھا گر گیا، ایک دیوار تھی ڈھے گئی، ایک آسرا تھا جو نہ رہا، دنیا میں پھیلی ہوئی سینکڑوں دینی تنظمیں، ہزاروں طلبہ، متعدد مبلغین براہ راست یا بالواسطہ شیخ سے مستفید ہوتے رہے، بلکہ شیخ محترم نے کئی مرتبہ ضرورت مندوں کی حاجت پوری کرنے کے لیے اپنے ہی دفتر کے بنائے ہوئے اصول اور ضابطے توڑے، شیخ کا یہ مقولہ عام تھا کہ ہم نے دفتر کے قوانین اس لیے بنائے ہیں تا کہ نظام بہتر چل سکے لیکن اگر نظام کے برخلاف بھی کسی کی مدد کی جاسکتی ہو تو اس پر عمل کرنا چاہیے کیونکہ مقصد ضرورت مندوں کی مدد ہے نہ کہ خود ساختہ نظام کی پاسداری اور ویسے بھی یہ اصول کسی وحی کی روشنی میں نہیں بنائے گئے کہ ان کو توڑ نے سے کفر لازم آتا ہو، گویا مخلوق میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کی زندگی کا مقصد ہی دوسروں کی مدد کرنا ہوتا ہے اور یقینا یہ لوگ قیامت کے دن بلنددرجات کے مستحق ہوں گے، ورنہ آج کتنے لوگ ہیں جو صاحب اختیار واقتدار ہونے کے باوجود معمولی عذر کی بنیاد پر جواب دے بیٹھتے ہیں۔
اب ہم چاہتے ہیں کہ ان کی زندگی کے اس پہلو پر روشنی ڈالی جائے جس کے باعث وہ سخت حالات اور مختلف آزمائشوں کے باجود اپنا کام جاری رکھنے میں کامیاب رہے، دراصل شیخ کا اصول ایجابی اور طرز حکیمانہ تھا، کسی انسان کی بلندی علم وعمل کے ساتھ یہ دو نہایت بیش قیمت جو ہر ہیں، مزاج اگر ایجابی ہو تو آدمی رد عمل کو منفی اسلوب میں ظاہر کرنے کے بجائے اس میں پائے جانے والے فائدوں پر نظر رکھتا ہے اور ان سے استفادہ کی کو شش کرتا ہے اور اگر نظر حکیمانہ ہو تو بیرونی دنیا میں پائی جانے والی کمزوریوں پر تنقید بھی حکمت سے بھر پور ہوگی، غالباً یہی وجہ ہے کہ شیخ نے مختلف دور دیکھے مگر کسی حکمران کو ان کے خلاف براہ راست انتقامی