کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 182
﴿یَرْفَعْ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ وَّاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ﴾
اللہ تعالیٰ اہل ایمان وعلم کے درجات کو بلند فرماتے ہیں، اس آیت کی عملی تفسیر کے واقعات تو سلف صالحین کی زندگیوں میں بہت ملتے ہیں جیسے ایک مرتبہ مشہور محدث حضرت عبداللہ بن مبارک کی جب شہر رقہ میں آمد ہوئی تو خلیفہ وقت ہارون الرشید کی لونڈی کو کہنا پڑا کہ حقیقی بادشاہ تو وہ ہیں جن کے ساتھ پولیس اور پہرہ دار نہ ہونے کے باوجود ان کے دیدار کے لیے شہر کا ہر چھوٹا بڑا امنڈپڑا ہے، یہ بات اس خلیفہ کے سامنے کہی جارہی تھی جس کی اس وقت دنیا کے نصف سے زیادہ حصہ پر حکمرانی تھی، امام حسن بصری کا جب جنازہ اٹھا تو بصرہ مردوں سے خالی ہو گیا، حتی کہ بصرہ جو اس وقت سلطنت اسلامیہ کا دوسرا بڑا شہر سمجھا جاتا تھا، وہاں کی جامع مسجد میں عصر کی اذان دینے والا تک نہ رہا، جب اما م ابن تیمیہ کا جنازہ اٹھا تو شہر میں ایسے معلوم ہوتا تھا کہ ہر گھر سے ان کے عزیز ترین فرد کا جنازہ اٹھ رہا ہے، حالانکہ اس مرد مجاہد کی وفات قید خانہ میں ہوئی تھی۔ اور امام احمد بن حنبل کا جنازہ تو کئی لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بن گیا جب انہوں نے زندگی کے بیشتر ایام تنگدستی سے گزارے بلکہ زندگی کے آخری ایام میں ایک مرتبہ سخت بھوک کے باعث رات میں آنکھ کھلی تو بیٹے سے کچھ کھانے کے لیے طلب کیا، جو تلاش بسیار کے بعد نصف روٹی کا ٹکڑا ہی گھر میں پاسکے جسے امام وقت تناول کر کے بار گاہ الٰہی میں سجدہ ریز ہوگئے لیکن اس عالم باعمل کے جنازہ میں شرکت کرنے والوں کی تعداد اس قدر تھی کہ تاریخ میں اس کی مثال ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی، لیکن یہ واقعات اب ہم تاریخی کتابوں ہی میں پڑھتے ہیں اور جی چاہتا ہے کہ کہیں اس کی عملی تصویر بھی دکھائی دے اور بڑی حد تک شیخ بن باز کی شکل میں یہ چیز دکھائی دیتی تھی کہ نابینا ہونے کے باوجود ہر وقت عقیدتمندوں کا ہالہ اطراف لگا رہتا اور عقیدت مندوں میں ہر طبقہ کے لوگ بشمول بادشاہوں اور حکمرانوں کے ہوا کرتے،بظاہر علم وعمل کو اگر نکال دیا جائے تو شیخ کے پاس تھا ہی کیا، نہ دولت کی فراوانی اور نہ ہی اقتدار کی شوکت،دولت کا یہ عالم کہ کئی مرتبہ تو وہ مقروض