کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 181
ہوتی رہیں، کبھی آفس میں، کبھی درس میں، کبھی مسجد میں، کبھی کانفرنس میں اور کبھی موصوف کے گھر پر بلکہ مجھے ان کے ساتھ ایک ہی برتن میں کھانے کا موقع بھی ملا لیکن میں سوچتا ہوں کہ مختلف براعظموں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے لیے شیخ کی شخصیت میں کون سی کشش تھی، کیوں سب اپنی مصروفیات چھوڑ کر اس طرح دوڑ پڑے جیسے پروانے شمع کے گرد کھنچے چلے جاتے ہیں، اور ان بھاگنے والوں میں مجھ جیسے بیشتر طلبہ ایسے تھے جن کا شیخ کے ساتھ کوئی قریب کا تعلق نہ تھا بلکہ جنہوں نے شیخ محترم کو دیکھا ہی آج تھا، یہاں قرآن مجید کی ایک آیت میری پر یشانی کو دور کرنے کا سبب بنی : ﴿ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَنُ وُدًّا ﴾ ’’ جو دولت ایمان وعمل سے مالامال ہو جائے اللہ تعالیٰ اس کی محبت بندوں کے دل میں ڈال دیتے ہیں۔‘‘ غالباً میں اس آیت کی عملی تفسیر شیخ اور طلبہ کی ملاقات کے موقع پر دیکھ رہا تھا، بلکہ ایک مرتبہ مسجد نبوی میں دیکھا کہ شیخ نماز کے بعد نکل رہے ہیں، مختلف عرب نمازی اپنی جگہوں سے اٹھ کر شیخ سے ملاقات کے لیے دوڑ ے جارہے ہیں، اور میں نے مکہ مکرمہ میں دیکھا کہ پولیس شیخ کو طواف کروارہی ہے، اس لیے نہیں کہ انہیں کسی سے خطرہ تھا بلکہ محبت کرنے والوں کے ہجوم کا اندیشہ ہوا کرتا اور پولیس کا وہاں کام یہ ہوتا کہ شیخ کے اطراف دوڑ نے والوں کو تھوڑا ساکنٹرول کرے، بعض اوقات ایسی ملاقاتوں سے کسی سیاسی یاذاتی مفادات کا بھی شبہ ہوتا ہے کہ شاید اس لیے آمد ورفت اور ملاقات ہے کہ کوئی اغراض پوشیدہ ہوں لیکن شیخ محترم کے ساتھ یہ بات بھی نہیں تھی کیونکہ شیخ صاحب مصافحہ کر نے والوں یا پیشانی چومنے والوں کو دیکھ ہی نہیں سکتے تھے، تو غرض کس بات کی اور بعض اوقات شیخ کے ساتھ بڑے بڑے لوگ بھی ہوا کرتے لیکن ملاقات کرنے والے ان بڑوں کی موجودگی میں اس درویش ہی پر اپنی توجہ رکھتے، کیونکہ جو علم وعمل میں بڑا ہو آج کے اس گئے گزرے دور میں بھی لوگ اسی کو بڑا سمجھتے ہیں، اسی کی قرآن میں تصدیق کی گئی: