کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 18
نے اپنے ادارے سے شائع کی ہے۔ یہ دراصل شہزادہ نایف بن ممدوح بن عبد العزیز حفظہ اللہ کی عربی زبان میں تالیف کردہ کتاب کا اردو ترجمہ ہے۔ موصوف نے بڑی محنت سے اس کا ترجمہ کیا ہے اور عربی کتاب کو اردو کے حسین قالب میں ڈھالا ہے۔ یہ کتاب اردو زبان میں اپنی نوعیت کی انتہائی مفید اور جامع کتاب ہے؛ بلکہ یہ کہوں تو شاید مبالغہ نہ ہوگا کہ اس موضوع پر اردو زبان میں کوئی مستقل کتاب ہے ہی نہیں۔ ہمارا ادارہ جناب ریاضی صاحب کا از حد شکریہ ادا کرتا ہے کہ انھوں نے بلا کسی مادی فائدے کے ہمیں یہ کتاب منظر عام پر لانے کا موقع فراہم کیا۔
زیر نظر کتاب ’’علامہ ابن باز رحمہ اللہ، یادوں کے سفر میں ‘‘ بھی درحقیقت جناب ریاضی صاحب کی کوششوں کا ثمرہ ہے۔سعودی عرب کے دار الحکومت ریاض میں ہر سال کتابوں کا ایک بہت بڑا میلہ لگتا ہے۔ اس میلے میں دنیا کے بہت سارے معروف ومشہور پبلشر حصہ لیتے ہیں۔ امسال یعنی 1431ہجری کا میلہ لگا تو میں بھی کتابوں کی خریداری اور میلے سے استفادہ کی غرض سے جدہ سے ریاض پہنچا اور اس سفر میں جناب ریاضی صاحب سے بھی ملاقات ہوئی۔ مجھے معلوم ہوا کہ موصوف نے کئی ایک کتابوں پر کام کیا ہے اور ان کی لکھی ہوئی کئی کتابیں مسودہ کی شکل میں الماری کی زینت بنی ہوئی ہیں۔ انھی کتابوں میں سے ایک یہ کتاب بھی ہے جو ابھی آپ قارئین کے ہاتھوں میں ہے۔ دورانِ گفتگو جب اِس کتاب کا تذکرہ آیا تو میں نے اسے بھی شائع کرنے کی خواہش ظاہر کی اور ریاضی صاحب نے ہامی بھی بھر لی۔
در اصل مجھے اس روئے زمین پر جن شخصیات سے سب سے زیادہ محبت تھی اور آج بھی ہے۔ وہ علامہ ابن باز رحمہ اللہ کی شخصیت ہے۔ میں نے ان جیسا سخی اور عالم با عمل انسان کہیں نہیں دیکھا۔ میں چاہتا تھا کہ ان کے اوپر ہمارے ساتھی کتابیں لکھیں لیکن بدقسمتی سے آج تک اردو زبان میں ان کی حیات پر کسی نے مستقل کوئی کتاب لکھنے کی کوشش ہی نہیں کی اور کوشش کی بھی ہوگی تو اسے اب تک مارکیٹ میں لانے سے محروم ہے۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ علامہ ابن باز رحمہ اللہ کے بارے میں ان کی وفات کے کچھ ہی دنوں بعد اردو داں طبقہ کتاب لکھتا