کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 179
شیخ ابن باز کے بیش قیمت جوہر
حکیمانہ اسلوب اور مثبت سوچ
(از:....محمد عبدالہادی العمری[1]، برمنگھم)
مدینہ یونیور سٹی کے ہاسٹل میں طلبہ اپنے اپنے کمروں میں محومطالعہ تھے کہ اچانک ایک شور سا اٹھا کہ شیخ ابن باز جامعہ کی مسجد میں تشریف لائے ہیں، یہ سنتے ہی اکثر نووارد طلبہ اپنی کتابوں کو چھوڑ کر جامعہ کی مسجد کی طرف دوڑے جارہے تھے کہ شیخ ابن باز سے ملاقات ہو جائے ان بھاگنے والوں میں ہم ہندو پاک کے علاوہ افریقی طلبہ کی تعداد بہت زیادہ تھی، چونکہ نماز ہو چکی تھی، اس لیے مسجد کے دروازے پر طلبہ دور تک کھڑے ہوگئے، اتنے میں مختلف اساتذہ اور مشائخ کے ساتھ شیخ محترم نمودار ہوئے، ہاتھ میں ہلکی سی چھڑی، جسم پر عربی لباس جو عربوں کی عادت کے برخلاف ٹخنوں سے اوپر اٹھاہوا، اتباع سنت کی غمازی کر رہا تھا، سر پر سرخ رومال، مسکراتا ہوا چہرہ اور ہونٹوں پر دعائیہ کلمات، یہ تھے شیخ ابن باز جن کے دیدار کی تمنا کئی برس سے دل میں مچل رہی تھی، اب اکثر طلبہ منتظر تھے کہ مصافحہ کا موقع مل جائے لیکن نئے طلبہ کے لیے بڑے اساتذہ اور شیوخ کی موجود گی میں یہ جرات قدرے مشکل تھی، لیکن
[1] محمد عبدالہادي العمري کا تعارف:
یہ مضمون جناب مولانا محمد عبد الہادی عمری مدنی حفظہ اللہ کا ہے۔ آپ کی ولادت حیدرآباد میں سن 1956ء میں ہوئی۔ آپ کے والد محترم کا نام محمد افضل ہے۔ آپ کا گھرانہ نہایت صاف ستھرا اور اسلامی ماحول کا دلدادہ تھا۔ دین اور دینی ماحول سے شدید لگاؤ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ تین بھائی ہیں اور تینوں ہی مدینہ یونیورسٹی کے فارغ ہیں۔ سب سے بڑے بھائی مولانا عبد الرحمن مدنی، دوسرے بھائی عبد اللہ مدنی اور تیسرے آپ خود ہیں یعنی محمد عبد الہادی مدنی۔
آپ کے بڑے بھائی جناب مولانا عبد اللہ مدنی حفظہ اللہ میرے مشفق اساتذہ میں سے ہیں۔ انھوں نے مجھے جامعہ دار السلام عمرآباد میں دوسری اور تیسری جماعت میں پڑھایا ہے۔ مولانا عبد اللہ مدنی حفظہ اللہ ایک((