کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 177
اس نے راستے میں ایک کھوسٹ بوڑھے کو دیکھا جس کی عمر سو سال سے متجاوز تھی اور وہ پیر فرتوت اپنے باغ میں زیتون کے بیج بورہا تھا، رواں حال یہ کہ رعشے کی وجہ سے اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے اور پیر لڑکھڑا رہے تھے، بادشاہ اپنے قافلے کے ساتھ وہیں ٹھہر گیا اور بوڑھے سے اس نے دریافت کیا، بوڑھے میاں !زیتون کا درخت اگتا بھی دیر سے ہے اور پھل بھی کئی سال کے بعد دیتا ہے، تم دو دن کے مہمان لگتے ہو، ارے چل چلاؤ کا وقت ہے، اس درخت کا پھل تم نہیں کھا سکو گے، پھر یہ زحمت بے جاکیوں گوارا کر رہے ہو، بوڑھے نے جواب دیا، ہمارے آباء واجداد نے جو درخت بوئے تھے، اس کے پھل ہم نے کھائے، میں اس لیے تخم ریزی کر رہاہوں کہ میری اولاد واحفاد پھل کھائے گی، بوڑھے کے جواب سے خوش ہو کر بادشاہ نے ایک اشرفی اسے بطور انعام دے دی، اشرفی ملتے ہی بوڑھے نے کہا، حضور والا، آپ نے دیکھا کہ تخم ریزی ہونے بھی نہیں پائی تھی کہ میرے درخت نے پھل دے دیا، پھر مزید خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بادشاہ نے ایک اور اشرفی دے دی، اور رخصت ہونے ہی والا تھا کہ بوڑھے نے بادشاہ کو روکتے ہوئے کہا، جناب عالی! ہر درخت سال بھر میں صرف ایک مرتبہ پھل دیتا ہے، مگر میرے درخت نے ایک لمحے میں دو مرتبہ پھل دیا ہے، یہ سن کر اظہار مسرت کے طور پر بادشاہ نے اسے تیسری اشرفی دے دی اور اپنے درباریوں کو ساتھ لے کر یہ کہتے ہوئے فوراً وہاں سے چل پڑا کہ اگر ہم مزید یہاں ٹھہرے رہے تو بوڑھا اسی طرح بات چیت سے ہمارا خزانہ خالی کر دے گا۔ بہر کیف، شیخ ابن باز زندگی بھر دین وملت کی شاندار خدمات انجام دے کر رحمت الٰہی کی آغوش شفقت میں پہنچ گئے اور جاتے ہوئے امت مسلمہ کو یہ پیغام دے گئے کہ مرد مومن، بوڑھا ہو، بیمارہو اور معذور ہو، ایسی حالت میں بھی دعوت دین کا سلسلہ برابر جاری رہنا چاہیے، نیز دعوت دین کے لیے پرانے طور طریقوں کے ساتھ جدید وسائل اور مؤثر ذرائع کے استعمال میں دریغ نہیں کرنا چاہیے، یہ میری خوش قسمتی ہے کہ 1988ء میں جب مجھے سفر حج پر جانے کا موقع ملا تھا اس وقت میری خواہش اور تمنا تھی کہ شیخ ابن باز سے ملاقات کا