کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 175
پیش کر دیتے تھے، تدین و تقویٰ اور اتباع سنت میں سب سے آگے رہنے کی کوشش کرتے تھے، ہمیشہ بلند مناصب پر فائز ہوتے رہے، سعودی مملکت میں وہ کون سااعزاز وامتیاز تھا جوآپ کو حاصل نہ ہوا ہو، رابطہ عالم اسلامی کی مجلس تاسیسی کے صدر رہے، جامعہ اسلامیہ کا قیام عمل میں آیا تو اس کے وائس چانسلر بنائے گئے، ادارۃ البحوث الاسلامیہ والافتاء والد عوۃ والارشاد کے رئیس بھی رہے، سعودی حکومت کی ہیئۃکبار العلماء کے سر براہ بنائے گئے، سعودی عرب کے مفتی اعظم بھی وہی تھے، دولت علم کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے انہیں دولت مال سے بھی نوازاتھا، جس طرح علم کی دولت تقسیم کرتے تھے اسی طرح مال کی دولت بھی بے دریغ لٹا تے تھے، عالم اسلام کے بہت سے ادارے آپ کے مالی تعاون سے چلتے تھے اور بے شمار افراد تھے جو علی حساب الشیخ کے طور پر آپ سے وظیفہ حاصل کر کے مختلف دیار وامصار میں دعوت وتبلیغ کا فریضہ انجام دے رہے تھے، جود وسخاء اور داد ودہش کے جذبہ بے پایاں اور سیل رواں کا یہ عالم تھا کہ بعض اوقات شیخ محترم مقروض ہو جایا کرتے تھے۔
شیخ ابن باز کی دینی خدمات کے سلسلہ میں ان کا آخری کارنامہ (جو ان شاء اللہ ان کے لیے ذخیرہ آخرت ہی نہیں بلکہ ان کے رفع درجات کا بھی سبب بنے گا) یہ تھا کہ شیخ کا انتقال 13 مئی 99ء کو ہوا ہے، انتقال پر ملال سے صرف ایک دن قبل یعنی 12 مئی 99ء کو سعودی گزٹ میں اس کے نامہ نگار عمر الکاملی کے حوالے سے یہ ایمان افروز اعلان شائع ہوا کہ شیح دعوت دین اور اشاعت اسلام کا مہتمم بالشان کام ان شاء اللہ انٹر نیٹ کے ذریعہ کریں گے، اور اسلامی تعلیمات کی نشر واشاعت کے لیے جدید وسائل وذرائع استعمال کریں گے۔ 12 مئی کو سعودی گزٹ میں جب یہ بیان شائع ہوا تو ظاہر ہے کہ اس سے ایک دن قبل یعنی 11 مئی کو صرف دو دن کا وقفہ باقی رہ گیا ہے، اور عالم الغیب کے سوا کسی کو خبر نہیں کہ شیخ ابن باز دو دن کے بعد سفر آخرت پر روانہ ہونے والے ہیں، تصور کیجئے، ایک ایسی عظیم الشان اور جلیل القدر شخصیت کا،جس کی عمر تقریباً نوے سال ہے، بینائی سے محروم ہیں، بے حد ضعیف وعلیل ہیں، اس صورت حال کے باوجود اس پیر دردمند کا خیال ہے کہ ساری دنیا میں اللہ کا پیغام اللہ