کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 174
نامی اسم گرامی سے معروف ہیں، اللہ تعالیٰ ان کا ظل ہمایونی دیر تک قائم رکھے اور ارباب دین ودانش کو ان کے علم وفضل سے بہر ہ ور فرمائے، دوسری جلیل القدر شخصیت شیخ عبدالعزیز بن باز کی ہے جن کے چشمہ فیض سے عالم اسلام کے بہت سے تشنگان علم آسودہ وسیراب ہو رہے تھے، ابھی حال میں ان کی وفات بمقام طائف ہوئی ہے، وفات حسرت آیات کے وقت ان کی عمر اٹھاسی سال کی تھی، نجد کے ایک مردم خیز خطے میں ان کی ولادت ہوئی تھی، علم دین کی طلب صادق ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی، جیسے ہی آپ نے ہوش سنبھالا علم دین کی تلاش وجستجو میں نکل کھڑے ہوئے اور جہاں جہاں چشمہ ہائے علم موجود تھے وہاں پہنچ کر اکتساب فیض کیا، عہد طفولیت ہی میں قرآن مجید حفظ کر لیا اورعنفوان شباب کو پہنچنے تک تفسیر، حدیث، فقہ، ادب، افتاء اور سارے علوم شرعیہ حاصل کرلیے، یہ مشیت ایزدی اور مصلحت الٰہی تھی کہ ایک حادثے کے نتیجہ میں بیس سال کی عمر میں آپ بصارت سے محروم ہوگئے، بصارت سے محروم ہونے پر نہ آپ پر یشان ہوئے نہ پچھتائے، نہ مایوس ودل فگار ہوئے، نہ گلہ گزاریزداں بنے اور نہ شکوہ سنج دوراں ہوئے کیونکہ آپ کے فکر وذہن میں یہ حدیث قدسی محفوظ تھی: ’’ میں اپنے جس بندے کی دو پیاری چیزیں یعنی آنکھیں چھین کر اسے بینائی سے محروم کر دوں اور وہ حرف شکایت اپنی زبان پر لائے بغیر صبر وضبط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے تو میرے پاس اس کا بدلہ جنت کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔‘‘ بصارت کا خاتمہ بصیرت میں اضافے کا سبب بن گیا، جہاں آپ مجسمہ علم وفضل تھے وہیں آپ پیکر کردار وعمل بھی تھے، علم وعمل کے حسین وجمیل امتزاج نے آپ کو وہ رعب وجلال عطا کیا تھا کہ بڑی سے بڑی شخصیت کو بھی شریعت محمدی کی خلاف ورزی پر ٹوک دیا کرتے تھے، درس وتدریس، تقریر وتحریر اور مواعظ حسنہ میں فقہی جزئیات کا استقصاء اور کتاب وسنت کے نصوص کا غیر معمولی استحضار آپ کو حاصل تھا، قرآن حکیم کی کوئی آیت کریمہ پڑھتے تو معارف وحقائق کے دریا بہادیتے، کسی مسئلہ کے سلسلے میں کوئی حدیث پیش کرتے تو اس کی پوری سند بیان کر دیتے، حتیٰ کہ اس کے رجال کی توثیق وتخریج کے سلسلہ میں ائمہ کرام کی آراء