کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 173
علامہ شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ، مفتی اعظم سعودی عرب
( از:....ابو البیان حمادؔ عمری، جامعہ دارالسلام، عمر آباد، انڈیا)
اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کے بے شمار مظاہر ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں جن سے اس کی الوہیت اور بوبیت کے کرشمے ظاہر ہوتے رہتے ہیں، جیسا کہ ارشاد باری ہے، ’’اللہ تعالیٰ کی بہت سی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر تم جیتے جاگتے انسان بن کر چلنے پھر نے لگتے ہو‘‘ (سورہ روم) کائنات میں انسان کی حیثیت اشرف المخلوقات کی ہے، پھر خلافت ارضی کا بار گراں بھی اس کے دوش ناتواں پر رکھا گیا ہے، نوع انسانی میں اس اہم ذمہ داری کو بہ حسن وخوبی انجام دینے کی صلاحیت بند گان حق میں خوف خدا اور خشیت الٰہی کے ذریعہ ہو سکتی ہے اور خشیت الٰہی کے لیے علم دین کی تحصیل ضروری ہے، جیسا کہ اللہ نے ارشاد فرمایا ہے، اللہ تعالیٰ کی خشیت اللہ تعالیٰ کے ان سعادت مند بندوں میں پائی جاتی ہے جن کو علم دین کی دولت لازوال کے ساتھ معرفت الٰہی کی نعمت عظمیٰ بھی حاصل ہو چکی ہے۔ ہر دور میں اور ہر مقام پر علمائے حق پائے جاتے رہے ہیں، عالم اسلام ربانی علمائے کرام سے کبھی خالی نہیں رہا۔
بیسویں صدی میں ہر چند کہ قحط الرجال رہا ہے، لیکن اس دور میں بھی اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم شامل حال رہنے پر گنے چنے باکمال افراد پیدا ہوتے رہے ہیں بیسویں صدی کے دوران عرب ممالک میں دو عظیم شخصیتیں پیدا ہوئیں جن میں ہر ایک کو آیۃ من آیات اللّٰہ، کہا جا سکتا ہے، یعنی ان دونوں کا شمار قدرت الٰہی کی نشانیوں میں ہوتا ہے، ان دونوں کو من جانب اللہ علم وفضل کا جو عروج واقبال حاصل ہوا اس کے پیش نظر ان دونوں حضرات کو میں ’’ جبال علم‘‘ کہا کرتا ہوں، ان میں سے ایک بزرگ بقید حیات ہیں جو شیخ ناصر الدین البانی کے نام