کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 171
عقیدہ واسطیہ کے بارے میں فرمایا کہ نہایت عمدہ کتاب ہے، لمحات گزرتے جارہے ہیں، میں اپنی قسمت پر رشک کر رہا ہوں کہ شیخ براہ راست مجھ سے مخاطب ہیں اور پھر میں نے شیخ سے دعا کی درخواست کردی۔ اب ان کا دست شفقت میرے سر پر ہے، اللہ تمہیں اخلاص دے، بار بار اللّٰہ ینفع بک المسلمین، اللہ تجھ سے عالم اسلام کو فائدہ پہنچائے، اللہ تمہیں صحیح کتب نشر کرنے کی توفیق دے۔
میری آنکھوں میں آنسو ہیں، تشکر کے آنسو، اور واقعی اس ولی کامل کی دعاؤں سے استجابت کے آثار نظر آتے ہیں۔ واقعات کا ایک تسلسل ہے، ملاقاتوں میں کتنے ہی ان سے فائدے حاصل ہوئے، ایک اطمینان، سکون، لذت، جو عالم دین کی قربت سے، ملاقات سے حاصل ہوتی ہے، میری خوش قسمتی کہ اپنی تمام کتابوں کی، دنیا کی کسی بھی زبان میں شائع کرنے کی تحریری اجازت مرحمت فرمائی۔ اے ابو عبداللہ، اللہ آپ کی تربت پر لاکھوں رحمتیں نازل فرمائے، آپ کے درجات بلند فرمائے، آپ نے امت اسلامیہ پر بے پناہ احسان کیے ہیں، کتنے ہی داعی ہیں، کتنے ہی علماء ہیں جو دنیا بھر میں آپ کے خرچ پر دین کی دعوت کو پھیلارہے ہیں، کتنے مدارس اور مساجد ہیں، کتنے اسلامی مراکز ہیں، جن کو بنا نے میں آپ نے تعاون کیا، تو بلاشبہ اپنے وقت کا امام تھا، تو مجدد دین تھا، دنیا بھر کے جہادی مراکز میں آپ کا تعاون اور مشورے شامل ہوتے تھے، افغانستان کے بارے میں جہاد کا فتویٰ دیا تھا، آپ نے تو باقاعدہ سیل قائم کی، پشاور میں آپ کے معتمد ساتھی مقیم تھے، جو پل پل کی خبریں آپ کو بھجواتے تھے اور آپ کی راہنمائی لیتے تھے، اہل کشمیر آپ کی محبتوں اور تعاون کو کیسے بھول سکتے ہیں، اس کا تو میں خود گواہ ہوں کہ آپ نے کشمیر یوں کے جہاد میں حصہ لینے کی ترغیب دی، آپ کا دیا ہوا فتویٰ جس پر آپ کی مہر لگی ہے وہ ہمارے پاس محفوظ ہے۔
ابو عبداللہ! ہمیں اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ وہ آپ کے ساتھ اپنے خاص بندوں کا سلوک کرے گا، آپ دنیا میں بھی محبوب تھے، لاکھوں لوگ آپ کے اخلاق کریم سے فیض