کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 170
موقع ملا۔ مہمانوں کی تعداد چالیس پچاس تو عموماً ہوتی، بعض اوقات وفود آجاتے، تو تعداد بڑھ جاتی، کھانے کے دوران بھی مہمانوں سے دعوت اسلامی کے بارے میں سوال وجواب چلتے رہتے اور معلومات لیتے۔ بعض اوقات معمولی باتیں بھی پوچھتے، حیرت ہوئی کہ شیخ صاحب کو ان مسائل کا بھی علم ہے، 1413ہجری کی بات ہے کہ راقم الحروف نے قرآن پاک کا مترجم انگلش نسخہ پیش کیا جو کہ ہمارے ادارے کی طرف سے شائع ہوا تھا، ڈاکٹر محسن خان بھی ہمراہ تھے، بڑی تحسین کی، اور پھر کھانے کی دعوت دی، اصرار سے کہا کہ عبد المالک تم نے بھی ضرور آنا ہے، انکار کون کرتا، اگلے دن حسب پروگرام دو بجے دن ان کے گھر جا پہنچے، بیرون ملک سے وفود آئے ہوئے تھے، مگر اس دن قدرت میرے اوپر زیادہ مہربان تھی، دستر خواں پر بیٹھے، کھانا شروع ہوا تو اچانک شیخ صاحب نے مجھ سے نشر واشاعت کے بارے میں سوال شروع کردیے، اب کھانا کس کو سوجھے، امام وقت، ولی کامل مجھ جیسے گنہگار سے مخاطب ہیں، حیرت انگیز خوشی ہورہی تھی کہ شیخ کو نشر واشاعت کی تمام تر جزئیات کا علم ہے، کاغذ کے بارے میں سوال، تجلید، پر نٹنگ، پروف ریڈنگ، کون کون سی کتاب شائع کی ہے، ترجمہ کس کس کتاب کا کیا ہے، میں آہستہ آہستہ جواب دیتا رہا، کون کون مترجم ہے، کس کس زبان میں شائع کی ہیں۔ شیخ صاحب تحسین کے ساتھ دعائیں دیتے رہے، وہ خود کھانا بہت کم کھاتے تھے، ہمیں حکم دیا کہ تم کھانا مکمل کرو اور خود اٹھ گئے، میں نے کھانا شروع کیا تھا کہ ان کا خادم خاص دوڑتا ہوا ٓیا، وہ آواز لگا رہا تھا یا عبدالمالک یا عبدالمالک، میں نے اس کی طرف دیکھا، شیخ تمہیں یاد کررہے ہیں، میں پلک جھپکنے میں شیخ کے پاس پہنچ گیا، ڈاکٹر محمد محسن خان نے اشارہ کیا کہ ایسے مواقع بار بار نہیں آتے، اور پھر میں شیخ کے قدموں میں بیٹھ گیا اور اب اس ولی کامل نے مجھے نشر واشاعت کے حوالے سے نصیحتیں شروع کیں، فلاں فلاں کتاب شائع کرنا، فلاں کتاب کا ترجمہ، ابن تیمیہ کی کتب، ابن القیم کی کتب، محمد بن عبدالوہاب کی کتب، تفسیر حدیث کی کتب،