کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 169
پڑھانے میں گزرا) میں توڑا، چنانچہ آپ کے بے شمار ایسے شاگرد ہیں جو کسی مخصوص فقہ کے قائل نہیں، بلاشبہ وہ امام السلفیین اور امام اہل الحدیث تھے۔ ان کی کتب اوران کے 11 جلدوں پر مشتمل فتاویٰ کو دیکھئے آپ کو قرآن وحدیث ہی ملے گا، ان کے اس منہج نے امت اسلامیہ پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں اور لوگ فقہی موشگافیوں کو چھوڑ کر براہ راست کتاب وسنت سے رجوع کرنے لگے ہیں۔
تواضع وانکساری ان میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی، زبان پر نہیں کالفظ شاید ہی کبھی آیا ہو، ان کا دفتر ملاقاتیوں سے بھرارہتا، کسی کو مسئلہ دریافت کرنا ہے، کسی کو مالی مدد کی ضرورت ہے، کوئی نوکری کے لیے سفارش چاہتا ہے، کوئی علاج کے لیے ہسپتال میں داخلہ کا خواہاں ہے، کوئی مسجد بنوانا چاہتا ہے، شیخ کے کئی ایک سیکرٹری، دائیں بائیں ان کے مستشار، معاملہ پیش ہوتا، سیکرٹری متعلقہ لیڈر پڑھتا، آپ سماعت فرماتے پھر فوراً ہی اس کا جواب لکھواتے اور پھر اس خط کو ٹائپ کرنے کے لیے بھجوادیا جاتا، دن بھر میں سینکڑوں لیٹر دنیا بھر سے آتے، شیخ ان کو سنتے اور احکام صادر ہوتے، ٹیلی فون پر فتاوی لینے والوں کے لیے کبھی وقت مقرر نہ تھا، ہر وقت لوگ فون کر کے فتاویٰ لیتے رہتے، گھر جاتے تو گھر کا دالان ملاقاتیوں سے بھرا ہوتا، دنیا بھر کے علماء، معززین طلباء ان سے ملاقات کے لیے آتے، سلام عرض ہوتا، پوچھتے کون ہو، تعارف ہوا کون سے ملک سے ہو، اور پھر عموماً اس ملک کے کسی بڑے عالم دین کا حال احوال پوچھتے، حافظہ بلا کا تھا، ایک مرتبہ تعارف ہو جاتا تو پھر دوسری مرتبہ ضرورت کم ہی پڑتی، وہ اپنے وقت کے حاتم طائی تھے۔ ملاقاتیوں کو دوپہر اور رات کے کھانے کی عموماً دعوت دیتے اور اس پر اصرار کرتے، کھانے کی دعوت عام ہوتی تھی، دوپہر اور رات کو دومرتبہ بڑے کمرے میں کھانا لگتا، بڑے بڑے تھالوں میں چاول اور سعودی سٹائل میں گوشت کے بڑے بڑے ٹکڑے، چھوٹی چھوٹی کٹوریوں میں سالن، ساتھ روٹی، سلاد اور کبھی کبھار موسم کے مطابق پھل ہوتا، شیخ ریاض میں ہوں یا طائف میں، جتنے بھی مہمان ہوتے وہ سب کے سب کھانا کھاتے، کوئی پوچھنے والا روکنے والا نہیں، جو بھی آیا، شیخ کا دستر خوان کھلا ہے، کئی بار کھانے کا