کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 168
کارنامہ امت کو قیل وقال کی راہ سے نکال کر سنت کی راہ پر لگانا ہے۔
شیخ کے ایک شاگرد رشید عبداللہ العتیبی سے جو ایک مدت دراز تک ان کے حلقہ دروس میں شامل ہوتے رہے، سوال کیا گیا کہ شیخ ناراض کب ہوتے تھے کہ بشری تقاضوں کے مطابق انسان غصے میں بھی آتا ہے، خصوصاً ایک معلم بعض اوقات اصلاح کے لیے یاتربیت کے نقطہ نظر سے ناراض بھی ہوتا ہے، تو انہوں نے کہا کہ ہاں شیخ عموماً اپنے غصے کو ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے، مگر جب لوگ کتاب اللہ یا سنت رسول کو رد کردیتے اور لوگوں کے اقوال کا حوالہ دیتے تو سخت ناراض ہوتے۔
مسلم شریف میں ایک حدیث ہے جس میں آپ نے فرمایا کہ ان ابی واباک فی النار کہ میرا اور تمہارا باپ جہنم میں ہیں، اس کی شرح میں بعض طلباء نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے بطیب نفس (خاطر داری) کے لیے ایسافرمایا تھا تو شیخ نے غصہ کے عالم میں فرمایا:
(( یطیب نفسہ بعذاب ابیہ۔))
کتابیات کے ساتھ نکاح کے سلسلہ میں شروط پر گفتگو ہو رہی تھی، بعض طلبانے کہا کہ یا شیخ بعض صحابہ کرام اس سے منع کرتے تھے، شیخ طلباء کی طرف متوجہ ہوئے، چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا اور فرمایا:
(( ہل قول الصحابی یضادبہ الکتاب والسنہ۔))
اس طرح شیخ سے کسی نے مسئلہ دریافت کیا تو شیخ نے اس کا جواب قرآن وسنت سے دیا، اس نے کہا کہ شیخ فلاں نے اس طرح کہا ہے تو آپ سخت ناراض ہوئے اور فرمایا:
(( لیس للحد قول بعد کلام اللّٰہ وکلام رسولہ۔))
یعنی ....’’اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین مل جانے کے بعد کسی کی بات نہیں چلے گی۔‘‘
در اصل مومن کا عقیدہ یہی ہے کہ جب اللہ اور اس کے رسول کی بات آجائے تو پھر کسی کا اختیار باقی نہیں رہتا، اسی فقہی جمود کو شیخ نے اپنے کم وبیش80 سالہ علمی دور (جو پڑھنے