کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 165
صدر اور اعزازی ممبر اور رکن رہے، سعودی عرب کی متعدد اصلاحی اور خیراتی کمیٹیوں کے سر پر ست اور رکن تھے، شیخ ابن باز کی زندگی ایک ایسے انسان کی تھی جس کا ایک ایک لمحہ امت کی بھلائی اور خیر خواہی میں گزرتا تھا، ان کے شب وروز کے معمولات پر نظر دوڑائی جائے تو حیرت ہوتی تھی، ان کو گھر، دفتر، مسجد، حتی کہ گاڑی میں بھی مصروف دیکھا، یہ بات کہنے اور لکھنے کی نہیں ہے کہ وہ شب زندہ دار تھے، فجر سے کہیں پہلے اٹھ جاتے اور دیر تک مناجات میں مشغول رہتے، ان کے بیٹے احمد بن عبدالعزیز کا کہنا ہے کہ جس رات وفات پائی اس رات بھی آدھی رات کے بعد نماز اور مناجات میں دیر تک مشغول رہے، گھر کے قریب کی مسجد میں صبح کی نماز ادا کر تے، متعدد مرتبہ ایسا ہوا کہ میں نے دیکھا کہ نماز فجر کے دوران اگر امام قراء ت کے دوران ایسی آیات کی تلاوت کرتے جن کے مفہوم کو سمجھانا ضروری ہوتا تو نماز کے فوراً بعد ان کی تشریح شروع کر دیتے، پھر سنت کے مطابق مسجد میں ہی سورج نکلنے تک مشغول ذکر واذکار رہتے۔
ہفتہ میں کئی روز مسجد سارا اور دیرہ والی مسجد میں ان کے دروس ہوتے، دیرہ والی مسجد میں ان کے دروس میں متعدد بار شرکت کا موقع ملا، ذرا مسجد جامع الامام ترکی (دیر ہ والی مسجد) میں جمعرات کے روز کے درس کی مختصر تفصیل اور جھلک دیکھتے ہیں۔
فجر کے درس میں ریاض شہر کے کونے کونے سے طلباء اور علماء مسجد کے دروازوں سے یوں کشاں کشاں داخل ہوتے جیسے پروانے شمع کی تلاش میں آتے ہیں، گروہ در گروہ کتابیں اٹھائے ہوئے۔ فجرکی نماز کے فوراً بعد شیخ نے درس دیا ہے اور پھر اپنی مسند سنبھال لی ہے، حاضرین پر سناٹا طاری ہے، سامنے صحیح بخاری ہے، ایک طالب علم نے حدیث پڑھنا شروع کی، شیخ سماعت فرمارہے ہیں، حاضرین کی نگاہیں بدستور کتاب پر ہیں، کہیں کوئی مشکل لفظ آگیا، زیر وزبر کی غلطی ہوگئی، آپ نے فوراً سر اٹھایا، طالب علم نے حدیث پڑھنا بند کر دی، پہلے اصلاح پھر اس کی شرح بیان ہونا شروع ہوگئی، شیخ علم کے دریا بہا رہے ہیں، طلباء کی تعداد اب ہزار سے متجاوز ہے، یہ طلباء در اصل استاد، مدرس، پر وفیسر، یونیورسٹی کے اساتذہ