کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 164
کے آخر تک اس ذمہ داری کو نبھاتے رہے، مدینہ یونیورسٹی کے اس دور میں یہاں سے بڑے بڑے علمائے کرام فارغ ہوئے،آپ نے اپنے وقت میں دنیا بھر سے تمام بڑے بڑے علماء اور مفکرین کو یونیورسٹی میں جمع کیا، پاکستان وہندوستان کے کئی بڑے علماء یہاں بطور استاذ کام کرتے رہے، عالم اسلام کے نامور عالم دین علامہ احسان الٰہی ظہیر انہی کے شاگرد رشید تھے اور اسی زمانہ میں وہ یہاں کے طالب علم تھے۔
پاکستان کے علمائے اہل حدیث کے ساتھ ان کی محبت اور وابستگی بڑی گہری تھی، شیخ کے اساتذہ کی فہرست پر نظر ڈالیں تو آپ کو شیخ سعد بن حمد بن آل عتیق کانام نظر آئے گا، ان کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ علم کے حصول کے لیے دہلی میں شیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین محدث دہلوی کے مدرسہ رحیمیہ میں تشریف لے گئے اور وہاں سے حدیث کی سند حاصل کی شاید یہی وجہ ہے کہ اپنے استاد کے تعلق کی بنا پر ان کا برصغیر کے علماء کرام کے ساتھ بڑا گہرا تعلق تھا، ان سے محبت کرتے، ان کی خاطر داری کرتے، ان سے تعاون کرتے اور یہی وجہ ہے کہ جامعہ اسلامیہ میں بہت سارے بر صغیر کے اہل حدیث طالب علموں نے فیض حاصل کیا۔
علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ کا انتقال ریاض میں ہی ہوا تھا، علامہ صاحب جو شیخ ابن باز کے شاگرد رشید تھے، ان کی نماز جنازہ شیخ ابن باز نے پڑھائی تھی، میں اس کا عینی شاہد ہوں کہ شیخ ابن باز نے اپنے شاگرد کو زبردست خراج تحسین پیش کیا، شہادت کے دودن بعد ہم ایک وفد کی صورت میں ان کے گھر ان سے ملے، ہمیں اپنے کمرہ خاص میں لے گئے اور کم وبیش آدھ گھنٹہ تک اس حادثہ کے بارے میں معلومات لیتے رہے اور سوال کرتے رہے، ان کے چہرے کا کرب آج بھی آنکھوں کے سامنے ہے۔
14 شوال 1395ھ کو انہیں ادارہ البحوث العلمیہ والافتاء والدعوۃ والارشاد کا رئیس بنا دیا گیا، جس کامرتبہ وزیر کے برابر تھا، بعد ازاں وہ آخری دم تک مفتی اعظم سعودی عرب کے عہدہ پر فائز رہے، اس کے علاوہ وہ رابطہ عالم اسلامی کی کئی کمیٹیوں کے