کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 162
بندے سے محبت کرتا ہے اور جیسا کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے سے محبت کرتے ہیں تو اس کے مومن بندے اس سے محبت کرتے ہیں، بلاشبہ معاملہ ایسا ہی ہے۔ یہ کم وبیش 12 سال قبل کی بات ہے، میں وزارت دفاع والطیران کے مذہبی امور کے وفد کے ساتھ بطور مترجم حج میں ڈیوٹی پر تھا، منیٰ اور عرفات میں ان کا بڑا کیمپ تھا، اس حج وفد کے سر براہ جنرل عبدالمحسن آل الشیخ تھے، میدان عرفات میں غروب آفتاب سے تھوڑا پہلے حجاج اپنے ہاتھوں کو بارگاہ الٰہی میں پھیلائے ہوئے دعائیں مانگ رہے تھے، میرے بائیں ہاتھ جنرل عبدالمحسن دعا مانگ رہے تھے، اچانک کانوں میں ایک عجیب دعا کی آواز آئی، اے اللہ! میری باقی زندگی شیخ عبدالعزیز بن باز کو عطا فرمادے، کانوں پر اعتبار نہ آیا، ذرا قریب ہو کر سنا جنرل عبدالمحسن آل الشیخ یہی دعا بار بار دہرا رہے تھے۔ شیخ ابن باز....ایک عبقری شخصیت: پورا نام عبد العزیز بن عبداللہ بن عبدالرحمن بن محمد بن عبداللہ آل باز تھا، کنیت ابو عبداللہ تھی، آپ ریاض شہر میں 12 ذی الحجہ 1330ہجری میں پیدا ہوئے، آپ کے خاندان میں بعض افراد صنعت وحرفت اور بعض زراعت اور بعض تعلیم قضاء کے عہدوں پر فائز رہے، آپ کی بصارت بچپن میں بالکل درست تھی، مگر1346ھ میں آنکھوں کو مرض لاحق ہوا اور نظر کمزور ہوگئی، حتیٰ 1350ھ میں مکمل طور پر نظر آنا بند ہو گیا، وہ ہرچند کہ آنکھوں سے نابینا تھے مگر دل کی آنکھوں سے بینا تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کے دل ودماغ اور سینے کو علم سے روشن کر دیا اور عجب کمال حافظہ عطا فرمایا، نہایت ذہین اور نکتہ فہم تھے، بلوغت سے پہلے ہی قرآن پاک کو اپنے سینے میں محفوظ کر لیا علم دین سیکھنا شروع کیا تو صبح وشام علم کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا، علم حدیث سے گہرا تعلق تھا، حدیث کے ساتھ سند کو بھی دل ودماغ میں محفوظ کرلیتے۔ شیخ ابن باز کے اساتذہ: شیخ عبدالعزیز بن باز نے جس ماحول میں آنکھ کھولی اس میں شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ