کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 161
پہنچ گئے، اپنے شیخ کے جنازے میں شرکت کرنے کے لیے ان کے ساتھ اپنی محبت کے اظہار کے لیے اور صرف حرم مکی میں نہیں، مسجد نبوی شریف میں ان کی غائبانہ نماز جنازہ ادا ہوئی اور پھر اس دن سعودی عرب کے ہر شہر، ہر بستی اور ہر گاؤں میں شیخ کی غائبانہ نماز جنازہ ہوئی، سعودی عرب میں ہی نہیں بلکہ کم وبیش دنیا کے تمام ممالک میں شیخ کی غائبانہ نماز جنازہ ادا ہوئی، امام نے اپنے خطبوں میں شیخ کے حالات زندگی اور مناقب بیان کیے، آخریہ محبت یہ الفت یہ عقیدت، اس کے اسباب کیا تھے؟ وہ بلا شبہ علم کا آفتاب تھے آپ کی شہرت دنیا کے ہر کونے میں تھی، یہ شہرت ذرائع اعلام کے ذریعے نہیں کہ اخبارات نے، جرائد نے، عصر حاضر کے الیکٹرانک میڈیا نے ان کو شہرت دلوائی ہو، بلکہ وہ ایک زاہد تھا وہ شہرت سے نام ونمود سے کوسوں دور بھاگتاتھا اور شہرت اس کا پیچھا کرتی تھی مگر جتنا صدمہ ان کی وفات پر لوگوں نے کیا، تعزیت، ہر شخص ایک دوسرے سے ان کا ہی تذکرہ، ان کے ہی مناقب، اس میں کوئی شک نہیں کہ امت محمدیہ کے افراد مخلص علماء سے محبت کرتے ہیں، ان کی موت سے غم زدہ ہوتے ہیں کہ ایک علمی شخصیت اٹھ جائے تو اس کا بدل مشکل ہی نہیں ناممکن ہوتا ہے، کہ یہ قحط الرجال کا دور ہے۔ مگر سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا لوگ ان سے متبحر عالم دین ہونے کی وجہ سے محبت کرتے تھے یا ان کی حق گوئی پر ان سے محبت کرتے ہیں یا ان کی انکساری اور تواضع کی بنا پر ان سے محبت کرتے ہیں یا دنیا بھر میں اسلامی تحریکوں کو امداد اور تعاون کرانے پر اور لوگوں کے انفرادی مسائل حل کرنے کی بنا پر ان سے محبت کرتے ہیں یا ان کے حسن اخلاق کی وجہ سے کہ ان کے گھر میں، ان کے دفتر میں، ان کے مکتبہ میں، مسجد میں ہر جگہ حاجت مند ہوتے، کوئی مدد کا خواہاں ہے تو کوئی فتویٰ حاصل کرنا چاہتا ہے، یا دنیا میں اللہ تعالیٰ کے کلمہ کو پھیلانے کے لیے مساجد اور اسلامی ادارے بنانے پر لوگ ان سے محبت کرتے ہیں، پھر ان میں سبھی لوگ خواہ وہ مرد ہو یا عورتیں، بوڑھے، بچے، علماء، فقہاء، محدثین، طلباء، امراء، تاجر، مزدور عام شخص، لاکھوں میں نہیں کروڑوں کی تعداد میں شیخ کی محبت کا دم بھرتے ہیں، ان کا رشتہ خون، رنگ، نسل یا زبان سے نہیں تھا بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے اس