کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 160
اندازہ ہمارے جنازے سے لگانا اور پھر تاریخ نے دیکھا کہ امام احمد بن حنبل کا جنازہ تاریخی تھا، اس دن پورا دمشق روتا ہواجنازے میں شرکت کے لیے امڈ آیا تھااور یہی عالم شیخ ابن باز کے جنازے کے ساتھ ہوا، حرم پاک میں جمعہ کی نماز کے بعد امام سبیل نے جنازہ پڑھایا، سعودی عرب ہی نہیں بلکہ خلیجی ممالک سے علماء کرام اور دین کے طالب علم کشاں کشاں مکہ
[1]
[1] ( ’’الحکمۃ ضالۃ المؤمن، فحیث وجدہا فہو أحق بہا‘‘
’’حکمت ودانائی مؤمن کا گمشدہ مال ہے، اسے جہاں ملتی ہے وہ اس کا زیادہ مستحق ہے۔‘‘
[یہ حدیث ضعیف ہے البتہ اس معنی کے کئی ایک اثر صحیح وارد ہوئے ہیں ]
تو اس پر عمل کرنے والے بہت ہی کم ہوتے ہیں، اور میں سمجھتا ہوں کہ جناب عبد المالک مجاہد اس حدیث پرعمل کرنے والوں میں سے ایک ہیں ؛ بلکہ اس گروہ کے صف اول میں سے ہیں۔
عبد المالک مجاہد کی ستودہ صفات میں سے یہ بھی ایک ہے کہ آپ مہمان نواز اور کرم فرما ہیں۔ اپنی زبان سے خاص کر کبھی بھی ہلکی بات نہیں نکالتے؛ بلکہ اپنے خلاف بات کرنے والوں کے ساتھ بھی آپ کا نرم رویہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کی زندگی ایک کامیاب انسان کی زندگی ہے۔ آپ بار بار فرماتے ہیں کہ ’’جہاں تک ممکن ہو سکے، کم سے کم دشمن بنانے کی کوشش کرو۔‘‘ خاص کر یہ نصیحت آپ نے مجھے بار بار فرمائی ہے۔
عبد المالک مجاہد در اصل اس صدی میں ایک ایسی شخصیت کا نام ہے جو امت مسلمہ کے لیے بلاشبہ ایک نعمت غیر مترقبہ ہے۔ انھوں نے اپنے کام سے جس طرح محبت کی ہے ویسی محبت شاید ہی کوئی کرتا ہو۔ انھوں نے اپنی زندگی مکتبہ دار السلام کو سنوارنے اور سجانے میں لگا دی ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج مختلف ممالک میں تقریباً اس مکتبہ کی تیس سے زائد شاخیں ہیں۔ بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اس وقت مختلف زبانوں میں دینی کتابیں شائع کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا مکتبہ ہے۔ اس ادارے نے اسلام اور صحیح عقیدے کی جس قدر خدمت کی ہے اس کی مثال اس دور میں نہیں ملتی۔
میں نے عبد المالک مجاہد کے ساتھ تقریباً چار سالوں تک کام کیا ہے اور آج بھی جبکہ میں دار السلام کی کفالت میں نہیں ہوں، ان سے تعلقات بہت اچھے ہیں اور بسااوقات ان کی کتابوں کے ترجمہ اور ایڈٹ کے لیے جاتا رہتا ہوں، میرا ذاتی مشاہدہ ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ میری باتوں سے اکثر لوگ اتفاق رکھیں گے کہ عبد المالک مجاہد جیسی ہستیاں اس دنیا میں بہت ہی کم پیدا ہوتی ہیں، اگر امت میں ایسے چند درجن افراد پیدا ہو جائیں تو پھر طباعت اور اس سے متعلقہ ابواب میں کسی غیر قوم کا مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ سے مقابلہ محال ہوگا۔ میری زندگی میں چند ہی اشخاص ایسے آئے ہیں جن سے میں متاثر ہوا ہوں یا جن سے فائدہ اٹھایا ہے جبکہ میں نے کبھی بھی چھوٹے لوگوں کے ساتھ کام نہیں کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ میں جن افراد سے زیادہ متاثر ہوا ہوں ان میں عبد المالک مجاہد کا نام صف اول میں ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ ان کی عمر میں برکت عطا فرمائے تاکہ ان کے ذریعے زیادہ سے زیادہ اسلام اور صحیح عقیدے کی خدمت ہو سکے۔