کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 159
راجعون کا ورد تھا اور میں گلوگیر نگاہوں سے احباب سے کہہ رہا تھا کہ آج دنیا میں لوگ شیخ کی وفات پر رورہے ہیں اور ان شاء اللہ آسمانوں والے خوشیاں منا رہے ہوں گے کہ ایک نیک اور پاک روح ہمارے پاس آئی ہے۔ شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز سعودی عرب کے مفتی اعظم ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کے مفتی اعظم تھے، ان کے فتاوی دنیا بھر میں مستند ہیں۔لوگ عرب میں ہو ں یا عجم میں ان ہی کے فتاویٰ کو مستندمانتے تھے، بلاشبہ شیخ کی وفات سے دنیا ایک بہت بڑے عالم دین سے محروم ہوگئی، موت العالم کے مطابق ایسی شخصیات پر ایک زمانہ روتا ہے، دنیا بھر میں لوگوں نے ان کی موت پر ان کے دکھ اور رنج والم کا اظہار کیا، سعودی عرب کے عوام ہی نہیں بلکہ خواص نے بھی شاہی خاندان کے افراد بلکہ شاہ فہد بن عبدالعزیز، ولی عہد امیر عبداللہ بن عبدالعزیز، وزیر دفاع امیر سلطان بن عبدالعزیز نے ان کی وفات پر دلی کرب کا اظہار کیا اور ان کے جنازے میں شرکت کی سعادت حاصل کی اور پھر اگلے دن حرم پاک میں ان کی تاریخی نماز جنازہ ہوئی، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اپنے مخالفین سے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ ہماری مقبولیت کا [1]
[1] (کتابوں کے تراجم کی یہاں اشد ضرورت ہے۔ چنانچہ اس کے لیے آپ نے اپنے چند مخلص ساتھیوں سے مشورہ کیا اور اس راہ پر چل پڑے۔ آپ نے پہلے پہل چھوٹی چھوٹی کتابوں کا عربی سے اردو زبان میں ترجمہ کروایا اور اسے مارکیٹ میں لا کر طبع آزمائی کی۔ آپ نے دیکھا کہ مارکیٹ میں ایسی دینی کتابوں کی سخت ضرورت ہے۔ چنانچہ اس کے بعد آپ نے کئی ایک کتابوں کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کروایا اور مارکیٹ میں اتارا۔ قارئین کی طرف سے ہمت افزا نتیجہ سامنے آیا اور اس کے بعد باضابطہ آپ نے سن 1990ء میں مکتبہ دار السلام کی بنیاد سعودی عرب کے دار الحکومت ریاض میں رکھ دی۔ آپ کو مکتبہ دار السلام کے لیے ایک مخلص کفیل کی ضرورت تھی جو شیخ عبد اللہ بن محمد المعتاز حفظہ اللہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے پوری کر دی۔ اور پھر مختلف زبانوں میں دینی کتابوں کی نشر واشاعت میں آپ کی رفتار تیز سے تیز تر ہوتی گئی اور اس میدان میں آپ ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر ایک مثالی مکتبہ بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ عبد المالک مجاہد علم اور اہل علم سے بے حد لگاؤ رکھتے ہیں اور ان کے قدر شناس بھی ہیں۔ آپ کو جب کسی عالم کے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ اس سے تصنیف وتالیف یا ترجمہ وتحقیق کے حوالے سے کام لیا جا سکتا ہے، تو بلاجھجک اس سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کی پوشیدہ صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ کسی بھی انسان کی ایسی صفت ہے جس کا مالک کبھی بھی فائدے سے محروم نہیں رہ سکتا۔ سنن ترمذی میں جو حدیث آئی ہے: ((