کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 158
شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز....ایک ربانی عالم (از: ....عبدالمالک مجاہد[1] ؍ ڈائریکٹر مکتبہ دارالسلام، ریاض) 13؍ مئی جمعرات کی صبح میں نیویارک میں تھا، ایک دن پہلے ہی میں لندن سے امریکہ پہنچا تھا، لمبے سفر کی تھکان تھی، فجر کی نماز پڑھ کر سوگیا، ٹیلی فون کی گھنٹی نے میزبانوں کو جگا دیا، برادرم عبدالخالق بات کر رہے تھے، مجاہد صاحب کو اطلاع کردیں کہ شیخ ابن باز اس دارفانی سے رخصت ہو گئے ہیں، انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ ابھی ایک دن قبل ہی میں ان سے شیخ ابن باز کے بارے میں عرض کر رہا تھا کہ میرے ناقص علم کی حد تک روئے زمین پر ان سے بڑا کوئی عالم دین نہیں ہے اور عصر حاضر میں اسلام کو جتنا فائدہ شیخ ابن باز کی ذات سے پہنچا ہے شاید کسی اور شخصیت سے اتنا فائدہ حاصل نہ ہوا ہو، میرے میزبان جناب منصور احمد نے مجھے یہ دلخراش خبر بستر پر ہی دی، میں آنکھیں ملتا ہوا اٹھ بیٹھا، شیخ ابن باز وفات پاگئے، واقعی....خبر پر یقین نہ آیا، کیسے ہوگیا، کہاں سے خبر ملی ہے، اور پھر منصور صاحب تفصیلات بتا رہے تھے، زبان پر بار بار انا للّٰہ وانا الیہ
[1] عبد المالک مجاہدکا تعارف: یہ مضمون جناب عبد المالک مجاہد صاحب کا ہے۔ آپ کی ولادت نومبر 1955ء میں پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ضلع حافظ آباد کی بستی حضرت کیلیانوالہ میں ہوئی۔ آپ کے والد کا نام محمد یونس ہے۔ مکتبہ دار السلام کے حوالے سے یہ نام غیرمانوس نہیں۔ دنیا کے طول وعرض میں کون سا ایسا ملک ہے جہاں دار السلام کی کتابیں نہیں پہنچی ہوں گی۔ آپ خاص کر سعودی عرب کے شمال سے لے کر جنوب تک اور مشرق سے لے کر مغرب تک کسی بھی شہر میں چلے جائیں۔ آپ چھوٹی بڑی جس مسجد میں بھی نماز کے لیے داخل ہوں گے آپ کو عبد المالک مجاہد کے ادارے کی چھپی ہوئی کوئی کتاب یا قرآن کریم کی تفسیر وترجمہ کا کوئی نسخہ ضرور نظر آئے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر فرد کی خواہش ہوتی ہے کہ دار السلام کے مینیجنگ ڈائرکٹر جناب عبد المالک مجاہد کے بارے میں جانے۔ عبد المالک مجاہد سن 1980ء میں سعودی عرب وزارت دفاع میں سروس کی غرض سے آئے۔ آپ نے سعودی عرب کے ماحول کا بہت ہی اچھی طرح سے مطالعہ کیا اور یہ ضرورت محسوس کی کہ اجنبی زبانوں میں دینی ((