کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 155
شیخ کے ایک رفیق کا بیان:
رفیق کہتے ہیں کہ سماحۃ الشیخ کے ساتھ 37 برس تک رہا ہوں مگر ہمیشہ شیخ کو خیر اور عدل میں مشغول پایا اور وزراء حکومت کے لیے مخلص خیر خواہ پایا اور مبلغین و دعاۃ کے لیے بہترین راہنما پایا، فقراء کے لیے ہمدرد وغمگسار پایا اور یتیموں کے لیے ان کو مثل باپ دیکھا، پوری زندگی انہوں نے خدمت خلق میں گزاردی۔
مصر وقاہرہ کے خطباء اور وزیر وں نے کہا:
سماحۃ الشیخ اسلام کے علماء میں ایک نمایاں عالم تھے اور دعوت اسلامی کی نشرو اشاعت میں ایک نمایاں و ممتاز عالم تھے، ایک اور ڈاکٹر وخطیب نے کہا تمام اطراف عالم میں ان کے فتویٰ سے لاکھوں مسلمانوں نے فائدہ اٹھایا اور داعی کبیر کے انتقال سے اسلام کو بڑا خسارہ ہوا۔
رابطہ عالم اسلامی کے ڈاکٹر حسن علی الاھدل کا بیان:
شیخ کی محبت فقراء ویتامیٰ سے بہت تھی اور اطراف عالم میں سے ایسے لوگ ہوتے تھے کہ جن کے پاس زادراہ ختم ہوجاتا تو ان کی مدد کرتے تھے اور ان کی باتوں کو چاہے کتنی طویل ہو سنتے تھے، افریقہ کے طلبہ بھی ہوتے تھے اور ایشیا کے بھی اور امریکہ کے بھی، یہ تمام لوگ شیخ کی رعایت سے فائدہ اٹھاتے تھے اور مملکہ سے جاتے وقت بھی شیخ سے اپنی حاجات وضروریات میں مدد لیتے تھے، چاہے شیخ مکہ میں ہوں یا ریاض یا طائف میں ہوں، ان کا دروازہ تمام لوگوں کے لیے کھلاہوتا تھا، ان کی مجلس میں کھاتے بھی تھے اور وہیں سو بھی جاتے تھے اور وہ لوگ شیخ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بھی تھے۔
اسلامی ممالک کے لیے شیخ کی دعا:
شیخ اسلامی ممالک بالخصوص سعودی عرب کے لیے دعا کرتے تھے کہ ان کے حکمران ملک میں اسلام کی بالادستی قائم رکھیں، اسلامی شریعت کو نافذ کریں اور مسلمانوں کی صلاح وفلاح کے لیے کام کریں۔