کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 154
وہ مسلم حاکم اور فقیہ عالم کے درمیان مضبوط رابطہ چاہتے تھے، اور حدود اللہ سے قوانین کو جوڑنا چاہتے تھے، انسانی سوسائٹی کی مشکلات کو شریعت کی روشنی میں حل کرنا چاہتے تھے۔ شیخ الازہر محمد سید طنطاوی نے کہا: ان کی جدائی کا غم صرف مملکت سعودیہ عرب کو نہیں ہے، بلکہ ان کی جدائی کا غم پورے عالم اسلام کو ہے۔ ایک ڈاکٹر کا بیان ہے کہ اس عالم ربانی کی وفات امت کا بڑا خسارہ ہے اور بڑی زبردست مصیبت ہے کیونکہ دین اسلام اور عالم اسلام کے لیے ان کی خدمات بہت ہیں اور ان کے واضح فکر ونظر کی ہمیشہ تعریف کی جائے گی، عقیدۂ اسلامیہ کے دفاع کے موقع پر اور اسلام کی وضاحت سے بیان کرنے کے سلسلے میں بڑی حکمت و دانائی سے کام لیتے تھے اور اطراف عالم میں علمی ودینی موضوعات کے لیے یکتا تھے کیونکہ وہ بہت بڑے فقیہ تھے۔ ندوۃ الشباب الاسلامی کے ڈاکٹر حماد الجہنی کہتے ہیں : شیخ کے پاس ایک دن میں حاضر تھا، کثرت سے وفود آتے تھے، آپ ان کے احوال سے بخوبی واقفیت رکھتے تھے اور وہ جس شہر کے ہوتے تھے اس شہر کے مسلمانوں کا نام اور علماء کا نام لے کر پوچھتے تھے اور ان کی مشکلات ومسائل کو حل کرتے تھے، یہ ان کا امتیاز تھا جو اس زمانے کے اکثر علماء میں ناپید ہے۔ شیخ نے مسلم ممالک کی حالت جنگ میں مدد کی: شیخ کی اپنی زندگی میں مسلمانوں کے جو مسائل پیدا ہوئے ان سے ان کو آزاد کرنے کے لیے ان کی ہر طرح مدد کی،چاہے وہ مسئلہ فلسطین کا ہو چاہے بوسنیا وہرسک کا، چاہے وہ حالیہ جنگ کو سودا کا ہو، ہر ایک معاملہ میں مسلمانوں کو دشمنوں سے آزاد کرنے کے لیے مدد کے خواہاں ہوتے تھے، کوسودا میں سربی سپاہی مسلمانوں کو تنگ کر رہے ہیں اور ان کی نسل کو مٹانا چاہتے ہیں، ان کی بابت مسلمانوں سے امداد چاہتے ہیں، اپنے اخیر زمانہ مرض میں طائف کے اندر ایک دن طائف کے مسلمانوں کو کوسودا کے لیے اپیل کی، اس وقت ستر ہزار ریال جمع ہوگئے، یہ ان کی دردمندی اور ان کے کلمات کی تاثیر تھی۔