کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 153
ڈوب گیا اور چودہویں رات کا چاندغائب ہو گیا اور سورج نے چہرہ چھپا لیااور تمام خلق ان کی جدائی میں غمگین ہو گئی، لیکن ہم قضائے الٰہی پر راضی ہیں اور یہی یقین ہے کہ شیخ کو خیر کثیر حاصل ہو گا، میرے والد ان کا ذکر خیر بہت کیا کرتے تھے، ان کے مرتبہ کا بطور خاص ذکر کرتے تھے، ان کے تذکرۂ جمیل سے میرے اندر بھی ان سے تقرب حاصل کرنے کا جذبہ پیدا ہوا، ان کی مجلس میں بیٹھنے کی سعادت حاصل ہوئی، ان کے یہاں حاضری دینے کا جب موقع ملا تو جتنا ان کے بارے میں سنا تھا اس سے زیادہ مرتبے کا ان کو پایا، ان میں ایسی خصوصیات اور صفات تھی جو کم ہی کسی عالم میں موجود ہوں گی اور وہ ایسے حلیم اور بردبار تھے کہ وہ مسائلوں کے سوالات کو برداشت کرتے تھے اور اصرار کے ساتھ مانگنے والوں سے کسی طرح کی بے رخی نہیں کرتے تھے، کسی حاسد کے حسد سے کچھ ملال نہیں کرتے تھے۔ امام حرم شیخ سبیل حفظہ اللہ نے کلمہ خیر میں کہا: آج پوری امت مسلمہ مصیبت زدہ ہو گئی ہے، کیونکہ شیخ بہت بڑے عالم اہل سنت والجماعت کا امام اور عصر حاضر کے فقیہ وعلامہ تھے، ابھی گزشتہ جمعہ کو مل چکے ہیں جبکہ اچھے خاصے تھے لیکن اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے، اس کی مشیت میں کسی کا دخل نہیں۔ وزارۃ الاوقاف کے سابق وزیر ڈاکٹر عبداللہ الترکی نے کہا: شیخ رحمہ اللہ علم کی ایک چٹان اور پہاڑ تھے اور زہد و تقویٰ کے معاملہ میں بہت بلند تھے اور لوگوں تک خیر پہنچانے کی ان کی خصوصی رغبت تھی اور عمل صالح میں بھی منفرد وممتاز تھے۔ مصر کے صدر حسنی مبارک نے کہا: شیخ عبدالعزیز بن باز دینی اسلامی اشخاص میں سے سب سے بہتر تھے اور علم ومعرفت خدا سے مالامال تھے اور فقہی مباحث میں وہ یکتا تھے اور اچھے وسیع تجربے کے عالم تھے۔ اردن کے ڈاکٹر کامل شریف نے کہا: حکومت سعودیہ کی وزارتوں میں شریعت کے مطابق شیخ کی بڑی خواہش تھی کہ شریعت اسلامیہ پر سب کا عمل ہو،اس موقف کے اختیار کرنے میں ان کی مساعی کا بڑا دخل تھا کیونکہ