کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 151
ہیں تو آپ نے جواب دیا کہ میرے وظیفہ سے دس ہزار ریال اس عورت کو دے دو، چنانچہ عورت وہ مبلغ لے کر خوش خوش واپس ہوگئی۔
ہمدردی اور غم خواری کا ایک اور واقعہ:
ایک شخص کا بیان ہے کہ ہمارے دوستوں میں سے ایک شخص چار لاکھ ستر ہزار کا مقروض تھا، اس کے بیان کی سچائی کا جب شیخ کو یقین ہو گیا تو سماحۃ الشیخ نے صاحب السموالملکی امیر عبدالعزیز بن فہد کو خط لکھا کہ اس مقروض کے قرضہ کی رقم ادا کرد یں اور اگر آپ اس کے اداکرنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں تو معاملہ خادم الحرمین الشریفین تک پہنچا دیں گے، چند ایام گزرگئے تو پوری مکمل رقم شیخ عمر فلاتہ مرحوم نے ادا کردی اور اس آدمی پر جو قرض کی باقی رقم تھی اس کی ادائیگی ہو گئی، شیخ عمر فلاتہ مرحوم کے اندر بھی سینے میں کشادگی اور جو د وسخا اور فیاضی کی عادت تھی اور ہمارے سماحۃ الشیخ عبدا لعزیز بن باز رحمہ اللہ سے ان کا بہت بڑا گہرا تعلق تھا۔ (الاربعا 4صفر 1420ھ)
ایک پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک :
آپ کے پڑوس میں ایک صاحب مدت سے آباد تھے، ایک مرتبہ ان کے مکان میں آگ لگنے کا حادثہ ہوا،مکان مع ساز وسامان جل گیا، شیخ کے پاس وہ لوگ روتے ہوئے آئے، شیخ نے موقع پر جاکر حالات کا جائزہ لیا اور غمزدہ لوگوں کو تسلی دی اور ان کو ایک نیا تعمیر شدہ مکان رہائش کے لیے عنایت فرمایا، آپ کے وہ پڑوسی آپ کا ذکر خیر کر کے آپ کے محاسن کو یاد کر کے روتے رہے۔
سخاوت کا ایک اور واقعہ:
شیخ کے پاس ایک عورت آئی اور کہا کہ ہمارے خاندان کا کوئی پرورش کرنے والا نہیں ہے، چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، ان کے رہنے کے لیے گھر نہیں ہے تو شیخ نے ایک شاندار عمارت خریدی اور ان کو اس میں ٹھہرادیا، رحمہ اللّٰہ رحمۃ واسعا(الاربعاء4 صفر1420ھ)