کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 150
میں اطمینان سے بیٹھے رہے، نماز کے بعد اصحاب حاجات فقراء ومساکین پہنچ گئے تو جو بھی ان کے ہاتھ میں مال تھا ہر ایک کے حالات اور حاجات کو سن کر حسب ضرورت نقد تقسیم کرتے رہے اور ہر ایک کے ساتھ غمخواری کی یہاں تک کہ جوان کے پاس مال تھا وہ فقراء میں تقسیم ہو گیا، بسا اوقات فقراء ومساکین کی حاجت میں اپنے مال کو بھی تقسیم کر دیا کرتے تھے۔ (اخبار عالم اسلامی7۔12جون1999ء)
فیجی کے ایک عالم کے ساتھ سخاوت ومساعدت:
فیجی جزیرہ سے ایک صاحب حاضر ہوئے جو وہاں دعوت وتبلیغ اور تعلیم دین کا کام کرتے تھے، شیح نے ان سے ان کی ضروری تعمیرات کا حال معلوم کیا، شیخ نے سردست ان کو آٹھ لاکھ(اصحاب خیر کے نام خط لکھ کر) دلادیا، وہ شیخ کے ساتھ ظہر کی نماز مسجد میں پڑھنے لگے اور بریف کیس آگے رکھ لیا، پھر شیخ کے ساتھ ہی ان کی واپسی ہوئی، لیکن بریف کیس ہمراہ لے جانا بھول گئے، جب شیخ کے پاس پہنچے تو بریف کیس کا ہوش آیا تو فوراً شیخ کو بتاکر بریف کیس تلاش کر نے مسجد میں آئے، میں بھی اس زمانے میں شیخ کے ساتھ تھا جب وہ مسجد گئے تو بریف کیس ان کو نہیں ملا، کوئی راہ گیر اٹھا لے گیا، شیخ سے جاکر اپنا درد ناک معاملہ روتے ہوئے بیان کیا، شیخ نے تسلی دی اور دوسرے خطوط دوسرے اصحاب خیر کے نام لکھ کر پھر اتنی ہی رقم پوری کردی اور وہ خوش خوش واپس فیجی پہنچے۔
آپ کے بلند اخلاق کا واقعہ :
فلپائن کی ایک عورت آپ کو ڈھونڈتے ہوئے آئی اور اس نے کہا کہ میرے شوہر کو لوگوں نے قتل کر دیا ہے اور کنوئیں میں پھینک دیا ہے، میں نے بہت تلاش کی کہ کسی دردمند آدمی سے اس واقعہ کو بیان کروں، شیخ نے اس کی بات سنی، ادارہ مالیہ میں ایک خط لکھ دیا کہ اس عورت کو کچھ چیزیں مدد کے طور پر دے دی جائیں، ادارہ مالیہ کے ایک آدمی نے اس عورت کو واپس کر دیا کہ ادارہ میں ایسی عورت کی مدد کے لیے کوئی دفعہ نہیں ہے کہ کسی کا شوہر قتل ہو جائے اور کنوئیں میں ڈال دیا جائے تو اس کی مدد کرنے کی کوئی گنجائش ہو، لہٰذا ہم مجبور