کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 149
اور کچھ بیان کرنا باقی ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے اپنی پوری بات آپ کے سامنے رکھ دی ہے تو شیخ نے پہلے نمبر پر غور کر کے جواب دیا، پھر دوسرے نمبر کا جواب دیا، اور اس طرح ان کے تمام سوالوں کے جوابات ترتیب سے دیتے گئے، کیونکہ سارے سوالات ان کے ذہن میں موجود تھے۔ (البعث الاسلامی لکھنؤ، جون1999ء) شیخ ابن باز رحمہ اللہ کے اوصاف حمیدہ، ہمدردی، فیاضی اورسخاوت کا جذبہ: شیخ کے اوصاف حمیدہ اور خدمات جلیلہ کچھ کم نہیں ہیں کہ ان کو قلم بند کیا جاسکے، تعریف وتحسین کرنے والے ہر طرح سے تعریف کرتے رہیں گے، مگر آپ کی خوبیوں کا احاطہ نہیں ہوسکے گا، ازاں جملہ شیخ ابن بازؒ کی سخاوت کا ایک واقعہ پڑھیے: ’’آپ کے پاس ایک آدمی آیا اور اپنی حاجت ظاہر کی، شیخ نے ان کو ایک چیک دوہزار ریال کا دیا تو اس شخص نے اس میں ایک صفر بڑھا دیا اور بیس ہزار بنا دیا، جب چیک کو بنک میں لے کر گیا تو بنک کے مؤظف کو شبہ ہوا، اس نے فوراً فون کے ذریعہ مبلغ کی صحت کے بارے میں شیخ سے دریافت کیا، کیونکہ مؤظف کو یقین تھا کہ بیس ہزار صحیح نہیں ہے، شیخ رحمہ اللہ نے کہا کہ اس کو بیس ہزار ہی دے دو، مؤظف نے دوبارہ کہا کہ جعل سازی کر کے ایک نقطہ بڑھادیا ہے جو ظاہر ہے، آپ نے کہا کہ دے دو شاید اس کو زیادہ کی ضرورت ہو گی....یہ عالی ظرفی اور حوصلہ مندگی اللہ کے خاص بندے کو حاصل ہوتی ہے، جن کے دل میں محتاجوں اور دردمندوں کا غم ہوتا ہے۔‘‘ (اخبار عالم اسلامی7۔12 جون 99) ایک اور نادر واقعہ: شیخ رحمہ اللہ 1389ھ میں رابطہ عالم اسلامی کے دفتر میں تھے، کشادہ دلی اور حسن اخلاق سے لوگوں سے بات کر رہے تھے، اتنے میں ظہر کا وقت آگیا، ہم لوگ رابطہ سے متصل ایک مسجد میں نماز پڑھنے چلے گئے، جب نماز سے فارغ ہوئے تو کچھ سعودی حضرات کی جماعت آئی اور انہوں نے اپنے مال کی زکوٰۃ شیخ کے حوالے کردی، نہ ان کو گنا، نہ شمار بتائی، ثقہ اور اعتماد کی بنا پر آپ نے ریال کی گنتی نہیں کی، کیونکہ طرفین کو باہمی اعتماد تھا، شیخ تھوڑی دیر مسجد