کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 148
’’یعنی محمد بن نصر مروزی کے جلال وتکریم کی بنا پر تمہاری حکومت اور تمہارے بچوں کی حکومت پائیدار رہے گی، اور تمہارے بھائی کی حکومت ختم ہوجائے گی، جس نے محمد بن نصر مروزی جیسے عالم دین کے جلال و اکرام پر تم کو تنبیہ کیا تھا۔ (تذکرۃ الحفاظ للذہبی) جس طرح محمد بن نصر مروزی کے تکریم سے خراسان کے سلطان کو خوشخبری ملی کہ ان کا ملک ان کی اولاد در اولاد تک پائیدار رہے گا۔ اسی طرح سلطنت سعودیہ عربیہ ان شاء اللہ ثمردار پائیدار اور رحمت الٰہی سے برقرار رہے گی، حکومت سعودیہ عربیہ کو اللہ تعالیٰ تادیر امت مسلمہ پر سلامت باکرامت رکھے۔ شیخ ابن باز بڑے منکسر المزاج اور بہت متواضع تھے: شیخ کابیان اور وعظ انفرادی طور پر کم ہوتا تھا، ان کے بیان میں تقریر میں بہت سے طلبہ وعلماء ہوا کرتے تھے اور قاضی حضرات بھی بیٹھے ہوتے تھے لیکن شیخ رحمہ اللہ ان علماء کے درمیان بہت زیادہ ممتاز نظر آتے، اور قضاۃ کی مجلس میں سب سے اچھے قاضی نظر آتے اور مساجد وجوامع میں واعظوں کے درمیان سب سے اچھے واعظ تھے اور نادیات ومحاضرات کی مجالس میں سب سے اچھی تقریر کرتے تھے۔ شیخ ابن باز ہر درخواست کو خاموشی سے سنتے، پھر معقول جواب دیتے: سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن باز کے بارے میں دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے تعلیمی وتربیتی امور کے نگراں دکتور عبداللہ عباس ندوی فرماتے ہیں کہ مجھ سے انعام اللہ خاں مؤتمر اسلامی کراچی کے سیکرٹری نے خواہش کی کہ میں اپنے مطالب ومقاصد کو شیخ ابن باز کے سامنے اردو میں بیان کروں گا اور آپ اس کو عربی میں صاف صاف ترجمہ کر کے شیخ کو سنادیں، شیخ کے سامنے اردو میں اپنے مقاصد کو بیان کرتے رہے اور میں ان کا ترجمہ عربی میں کررہا تھا، آدھے گھنٹے تک ان کا بیان اور میری ترجمانی جاری رہی، شیخ نے کسی طرح کی پریشانی اثناء گفتگو میں ظاہر نہ کی اور مسلسل شیخ آدھے گھنٹے تک خاموشی سے سنتے رہے، اور جب انعام اللہ صاحب اپنی بات پوری کر چکے تو شیخ نے پوچھا کہ آپ نے اپنی بات پوری کہہ دی یا