کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 147
نے ایک دفعہ عطر کا ڈبہ ہدیتاً پیش کیا تھا شیخ نے اسے بھی قبول نہیں کیا تھا، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی طرح شیخ بھی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کے تحت ہی بات کرتے تھے، سعودی حکومت بھی آپ کے مشوروں اور فتوؤں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی اور اس پر عمل در آمد کرتی، سعودی حکومت وعوام میں آپ کو یکساں قدر وقبولیت حاصل تھی، سعودی سلطنت کے مؤسس اول شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمان کے عہد میں ملک سعودیہ عربیہ کے نام سے نامزد ہوا، محترم عبدالمالک مجاہد کا بیان ہے کہ شاہ عبدالعزیز کے دور میں شیخ ابن باز نے لکھنا شروع کیا، اور اللہ کی قسم ہے! آج تک جو کچھ بھی لکھا لکھوایا وہ صرف اللہ کی رضا کے لیے تھا، پھر دوسرے بادشاہ ملک سعودیہ عربیہ کے فرمانرواں ہوا، یہ جلالۃ الملک سعود ہندوستان کے دورہ پر آئے ہوئے تھے اور ان سے ہماری ملاقات جدہ کے شاہی محل میں شیخ نصیف رحمہ اللہ رئیس جدہ کی وساطت سے ہوئی تھی، فللہ الحمد (سفر نامہ حجاز مؤلفہ خاکسار) تیسرے بادشاہ ملک فیصل ہیں، جو سعودیہ عربیہ کے بہت بڑے مدیر بادشاہ تھے، چوتھے بادشاہ ملک خالد ہیں، ان کے بعد خادم الحرمین الشریفین ملک فہد بن عبدالعزیز پانچویں بادشاہ ہیں، آپ ان تمام بڑے بڑے بادشاہوں کے معاصر تھے، اور ان بادشاہوں کے احکام وفیصلوں کو عوام کے منشاء کے خلاف نہیں چاہتے تھے، بلکہ اپنے فتویٰ اور رائے عالی سے باہمی یگانگت پیدا کرتے تھے، عوام اور بادشاہ دونوں محبت والفت کا تعلق رکھتے تھے۔ شاہان سعودیہ شیخ ابن باز کے قدر دان تھے: ا س سلسلہ میں علامہ شمس الدین ذہبیؒ کی کتاب تدکرۃ الحفاظ کا ایک واقعہ یاد آیا وہ یہ کہ ایک مرتبہ محمد بن نصر مروزی جو بڑے پایہ کے عالم تھے، اپنی کسی ضرورت کو لے کر والی خراسان کے پاس گئے، اس نے ان کی بڑی عزت کی اور ان کے استقبال کے لیے کھڑا ہو گیا، والی خراسان کے بڑے بھائی نے کہا: ’’تم اپنی رعایا کے ادنیٰ شخص کے لیے کھڑے ہوتے ہو اس کی وجہ سے تمہار رعب ودبدبہ ختم ہوجائے گا۔‘‘ پھر رات میں والی خراسان نے خواب میں دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں اور اسے بشارت دے رہے ہیں کہ