کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 144
1420ھ)
وہ ساٹھ دیوانے جو خانہ کعبہ پر قبضہ کیے ہوئے تھے، اور ہر طرح ہتھیاروں سے لیس ہو کر خانہ کعبہ میں داخل ہو گئے تھے اور وہ اپنے کو مہدی موعود کہتے تھے، ان کا مقابلہ ومقاتلہ حکومت سعودیہ کے لیے مشکل ہورہا تھا، تو آپ نے اس آیت کی روشنی میں فتویٰ دیا، ’’ اور جو کوئی اس مسجد میں بے دینی اور ظلم کا طریقہ اختیار کرے گا، ہم اس کو دکھ کی مار کریں گے۔‘‘ (الحج:22)
یعنی اگر وہ لوگ خانہ کعبہ میں جنگ کرتے ہیں تو خانہ کعبہ میں جنگ کرنا پڑے گی اور استدلال میں یہ آیت کریمہ بھی پیش کی تھی۔ یعنی مسجد حرام کے اندر ان سے جنگ نہ کرو، لیکن اگر وہ خانہ کعبہ کے اندر تم سے جنگ کریں تو تم بھی ان سے جنگ کرو۔ ( البقرہ:191)
اسی پر حکومت سعودیہ نے عمل کیا اور خانہ کعبہ کے اندر پانی بھراگیا، جب وہ لوگ ڈوبنے لگے تو ان کو نکالا گیا اور ان کی گردنیں اڑادی گئیں، ان کی تصویر ہمارے پاس موجود ہے۔
یہ تھا شیخ کے تفقہ، اجتہاد اور بصیرت کا وہ معاملہ جس پر حکومت کو بھی کامل درجہ کا اطمینان حاصل تھا۔
دعوت وتبلیغ کے اصول:
جب اللہ تعالیٰ نے فرعون کی طرف موسیٰ علیہ السلام کو پیغمبر بنا کر بھیجا تو انہوں نے اپنے بھائی ہارون کو بھی اپنے ساتھ لے جانے کی درخواست کی، اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی ساتھ جانے کی اجازت دے دی اور فرعون جس سر کشی وکفران نعمت میں مبتلا تھا اور خود اپنے کو انار بکم الاعلی (میں تمہارا بڑا رب ہوں ) کہتا تھا، ایسے شخص کے سلطنت میں جاتے ہوئے اللہ نے تلقین کی تھی ’’ یعنی تم دونوں اس سے نرمی سے بات کرنا شاید اس کو نصیحت مل جائے اور اللہ سے ڈر جائے ‘‘ اورجناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اللہ نے حکم دیا کہ آپ دعوت میں نرم رویہ اختیار کریں، تا کہ لوگ دعوت کو قبول کر سکیں۔ چنانچہ ارشاد باری ہے: ’’ کیونکہ تو اللہ کی رحمت سے ان کے لیے نرم دل پیدا ہوا ہے، اگر تو بد خوسخت دل ہوتا تو تیرے پاس سے بھاگ جاتے، پس تو ان کو معاف کر اور ان کے لیے بخشش مانگ اور ان سے اپنے کام میں