کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 142
اعتراضات کیے، شیخ نے محاضرہ کے ان مسائل پر مناقشہ کیا اور کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ سے ایسی باتیں کی جنہوں نے حاضرین کو تعجب میں ڈال دیا اور شیخ شعراوی سے ان اعتراضات کا کوئی جواب نہیں بنا اور شیخ بن اباز رحمہ اللہ کے اس ملکہ علمیہ اور مرتبہ عظیم کے سبھی لوگ قائل ہوگئے۔ ( الاربعاء جدہ 4صفر1420ھ) شیخ ڈاکٹر محمد لقمان سلفی حفظہ اللہ اپنے شیخ ومرشد کے بارے میں لکھتے ہیں : انہی دنوں میرے شیخ علامہ محدث محمد ناصر الدین البانی حفظہ اللہ نے یونیورسٹی ہال میں محدثین کے طریقہ پر ایک لکچر دیا، حاضرین اس لکچر سے بہت مستفید ہوئے اور علم حدیث میں ان کے اونچے مقام کی جو شہرت تھی اس سے متعلق سرگوشیاں کرنے لگے، اتنے میں دیکھتا کیا ہوں کہ حضرت شیخ رحمہ اللہ اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے اور اپنے سیکرٹری کی مدد سے اسٹیج پر پہنچ گئے اور لکچر میں بیان کیے گئے بعض علمی امور پر محدثانہ تبصرہ کرنے لگے، کافی دیر کے بعد جب ان کی بات ختم ہوئی تو محدث محمد ناصر الدین البانی دوبارہ اسٹیج پر گئے اور حضرت الشیخ کا شکریہ اداکیا، اور علم حدیث میں ان کی عظمت کا اعتراف کیا، یہ واقعہ اس بات کی قطعی دلیل تھی کہ قرآن وسنت کے علوم میں میرے شیخ اپنے معاصر چوٹی کے علماء کے درمیان بڑی حیثیت کے مالک تھے۔ (ماہنامہ البلاغ، جولائی 99ء) سیاسی معاملات میں شیخ کا طرز عمل: ہمارے سماحۃ الشیخ بلارورعایت کتاب وسنت سے استدلال ایسے انداز سے پیش کرتے تھے کہ اراکین حکومت اور قبائل عرب میں کوئی منافرت اور مخالفت پیدا نہ ہوتی، اس لیے کہنا پڑتا ہے کہ آپ کو تفقہ فی الدین اور اجتہاد میں ایسا درک حاصل ہوا کہ کتاب وسنت کی روشنی میں ہر مسئلہ حل ہوتا چلا گیا۔ آپ ایک ایسے فقیہ اور بالغ النظر مفتی تھے کہ سیاست کے نوبدید(نئے نئے) مسائل کے معاملہ میں کافی گہرائی سے غور کرتے، کافی غور کے بعد دولت سعودیہ کے سامنے ان کا حل پیش کرتے، شیخ عبدالعزیز رحمہ اللہ کے اسی حکیمانہ رویہ کی وجہ سے امت مسلمہ کے تمام افراد ان سے محبت رکھتے تھے۔ (الاربعاء جدہ 4صفر 1420ھ)