کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 141
رابطہ کی مجالس میں آخری تقریر آپ کی ہوتی تھی، جس میں خالص کتاب وسنت سے وابستگی اور اس کے مطابق عمل کرنے کی بابت آیات پر آیات اور حدیث پر حدیث پڑھی جاتی تھی، رابطہ کی میٹنگ میں جو کلمات آپ ناپسند فرماتے تھے اس پر فوراً بحثیت صدر ٹوکتے تھے اور کہتے تھے اعداعد یعنی دوبارہ پڑھوا کر مناسب ترمیمات کراتے تھے، اور مجلس سے اس کی پوری بھرپور تائید ہوتی تھی، لیبیا کے صدر کرنل قدافی یا تیونس کے بورقیبہ یا کسی بڑے لیڈر کی زبان سے کوئی ایسی بات نکل جاتی جو اسلام اور اس کی تعلیمات کے خلاف ہوتی تھی تو اس میں بھی شیخ کی طرف سے فوری اقدام ہوتا، مگر اس خط کی تیاری میں پوری حکمت ودانائی کے ساتھ مخاطب کے مقام اور ادب واحترام کے تقاضوں کا پورا لحاظ کرکے دوسرا خط لکھا تے تا کہ مخاطب کے ادب واحترام کا حق بھی پورا ہو سکے۔ میں نے شیخ کو دیکھا کہ رابطہ کی مجلس میں لوگوں کی رائے سنتے اور مخالف وموافق دونوں رائیں سناکرتے تھے اور پھر بڑے ہی ادب واحترام سے مخالف وموافق رائے میں حق کی مطابقت کرتے ہوئے ایک بہترین فیصلہ کرتے تھے، جس میں کسی قسم کی کوئی تعلی وتفاخر نہیں ہوتا تھا اور کبھی ایسا ہوتا تھا کہ اپنی جورائے پیش کرتے تھے لیکن اعضاء مجلس کی دوسری رائے ہوتی تھی تو اپنی رائے کو واپس لے لیتے اور اعضاء مجلس کی رائے کو ترجیح دیتے تھے اور شیخ امر حق کو قبول کر لیتے تھے۔ شیخ کی عالمانہ وفقیہانہ حیثیت: محترم شیخ عبداللہ عمر نصیف کا بیان ہے کہ سماحۃ الشیخ کی بابت بچپن میں سنا کرتا تھا، شیخ سے ملاقات کا موقع ایک بار اپنے دادا شیخ نصیف کے ساتھ مدینہ منورہ میں ملا جبکہ شیخ عبدالعزیز جامعہ اسلامیہ مدینہ کے رئیس تھے اور میں نے اسی زمانہ میں ان کے بعض دروس اور بعض لکچروں کو سنا تھا، لیکن میں ان کے علم وفقہ سے اس وقت زیادہ متاثر ہوا جبکہ شیخ محمد شعراوی کے ایک لکچر کا مدینہ منورہ میں اہتمام کیا گیا تھا۔ 1392ھ میں ندوۃ الشباب الاسلامی میں ان کا لکچر ہوا، میں بھی اس وقت وہاں حاضر تھا، ان کا لکچر ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہا، ان کے لکچر پر کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا، لیکن شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ نے ان کے لکچر پر گیارہ